Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مزاح پر اشعار

مزاحیہ شاعری بیک وقت

کئی ڈائمنشن رکھتی ہے ، اس میں ہنسنے ہنسانے اور زندگی کی تلخیوں کو قہقہے میں اڑانے کی سکت بھی ہوتی ہے اور مزاح کے پہلو میں زندگی کی ناہمواریوں اورانسانوں کے غلط رویوں پر طنز کرنے کا موقع بھی ۔ طنز اور مزاح کے پیرائے میں ایک تخلیق کار وہ سب کہہ جاتا ہے جس کے اظہار کی عام زندگی میں توقع بھی نہیں کی جاسکتی۔ یہ شاعری پڑھئے اور زندگی کے ان دلچسپ علاقوں کی سیر کیجئے۔

اکبر دبے نہیں کسی سلطاں کی فوج سے

لیکن شہید ہو گئے بیوی کی نوج سے

اکبر الہ آبادی

لپٹ بھی جا نہ رک اکبرؔ غضب کی بیوٹی ہے

نہیں نہیں پہ نہ جا یہ حیا کی ڈیوٹی ہے

اکبر الہ آبادی

غضب ہے وہ ضدی بڑے ہو گئے

میں لیٹا تو اٹھ کے کھڑے ہو گئے

اکبر الہ آبادی

حقیقی اور مجازی شاعری میں فرق یہ پایا

کہ وہ جامے سے باہر ہے یہ پاجامے سے باہر ہے

اکبر الہ آبادی

اس قدر تھا کھٹملوں کا چارپائی میں ہجوم

وصل کا دل سے مرے ارمان رخصت ہو گیا

اکبر الہ آبادی

ہر ملک اس کے آگے جھکتا ہے احتراماً

ہر ملک کا ہے فادر ہندوستاں ہمارا

شوق بہرائچی

دھمکا کے بوسے لوں گا رخ رشک ماہ کا

چندا وصول ہوتا ہے صاحب دباؤ سے

اکبر الہ آبادی

جب غم ہوا چڑھا لیں دو بوتلیں اکٹھی

ملا کی دوڑ مسجد اکبرؔ کی دوڑ بھٹی

اکبر الہ آبادی

ہم نے کتنے دھوکے میں سب جیون کی بربادی کی

گال پہ اک تل دیکھ کے ان کے سارے جسم سے شادی کی

سید ضمیر جعفری

آم تیری یہ خوش نصیبی ہے

ورنہ لنگڑوں پہ کون مرتا ہے

ساغر خیامی

اردو سے ہو کیوں بیزار انگلش سے کیوں اتنا پیار

چھوڑو بھی یہ رٹا یار ٹوئنکل ٹوئنکل لٹل اسٹار

انور مسعود

جب بھی والد کی جفا یاد آئی

اپنے دادا کی خطا یاد آئی

محمد یوسف پاپا

صرف محنت کیا ہے انورؔ کامیابی کے لئے

کوئی اوپر سے بھی ٹیلیفون ہونا چاہئے

انور مسعود

تعلق عاشق و معشوق کا تو لطف رکھتا تھا

مزے اب وہ کہاں باقی رہے بیوی میاں ہو کر

اکبر الہ آبادی

عورت کو چاہئے کہ عدالت کا رخ کرے

جب آدمی کو صرف خدا کا خیال ہو

دلاور فگار

ہے کامیابیٔ مرداں میں ہاتھ عورت کا

مگر تو ایک ہی عورت پہ انحصار نہ کر

عزیز فیصل

اس کی بیٹی نے اٹھا رکھی ہے دنیا سر پر

خیریت گزری کہ انگور کے بیٹا نہ ہوا

آگاہ دہلوی

بیگم بھی ہیں کھڑی ہوئی میدان حشر میں

مجھ سے مرے گنہ کا حساب اے خدا نہ مانگ

ہاشم عظیم آبادی

بتوں کے پہلے بندے تھے مسوں کے اب ہوئے خادم

ہمیں ہر عہد میں مشکل رہا ہے با خدا ہونا

اکبر الہ آبادی

لانڈری کھولی تھی اس کے عشق میں

پر وہ کپڑے ہم سے دھلواتا نہیں

اختر شیرانی

ہونٹ کی شیرینیاں کالج میں جب بٹنے لگیں

چار دن کے چھوکرے کرنے لگے فرہادیاں

ہاشم عظیم آبادی

اور تو کچھ بھی نہیں حضرت ماچسؔ لیکن

آپ میں آگ لگانے کا کمال اچھا ہے

ماچس لکھنوی

دو سگی بہنوں کی دو گنجوں سے شادی ہو گئی

اور یہ بے زلف بھی ہم زلف کہلانے لگے

احمد علوی

چائے بھی اچھی بناتی ہیں مری بیگم مگر

منہ بنانے میں تو ان کا کوئی ثانی ہی نہیں

انور مسعود

کیا پوچھتے ہو اکبرؔ شوریدہ سر کا حال

خفیہ پولس سے پوچھ رہا ہے کمر کا حال

اکبر الہ آبادی

وہ ان کا زمانہ تھا جہاں عقل بڑی تھی

یہ میرا زمانہ ہے یہاں بھینس بڑی ہے

ماچس لکھنوی

پروفیسر یہ اردو کے جو اردو سے کماتے ہیں

اسی پیسے سے بچوں کو یہ انگریزی پڑھاتے ہیں

احمد علوی

علم حاصل کر کے بھی ملتی نہیں ہے نوکری

رحم کے قابل ہے بس حالت ہماری ان دنوں

رنجور عظیم آبادی

نرس کو دیکھ کے آ جاتی ہے منہ پہ رونق

وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے

رؤف رحیم

پہلے ہم کو بہن کہا اب فکر ہمیں سے شادی کی

یہ بھی نہ سوچا بہن سے شادی کر کے کیا کہلائیں گے

راجہ مہدی علی خاں

وہاں جو لوگ اناڑی ہیں وقت کاٹتے ہیں

یہاں بھی کچھ متشاعر دماغ چاٹتے ہیں

دلاور فگار

آ کے بزم شعر میں شرط وفا پوری تو کر

جتنا کھانا کھا گیا ہے اتنی مزدوری تو کر

دلاور فگار

جو چاہتا ہے کہ بن جائے وہ بڑا شاعر

وہ جا کے دوستی گانٹھے کسی مدیر کے ساتھ

ظفر کمالی

چہرے تو جھریوں سے بھرے دل جوان ہیں

دن میں ہیں شیخ رات میں سلمان خان ہیں

ساغر خیامی

پریشانی سے سر کے بال تک سب جھڑ گئے لیکن

پرانی جیب میں کنگھی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے

غوث خواہ مخواہ حیدرآبادی

جوتے کے انتخاب کو مسجد میں جب گئے

وہ جوتیاں پڑیں کہ خدا یاد آ گیا

دلاور فگار

دس بچوں کے ابا ہیں مگر ہے یہی خواہش

ہر وقت ہی بیٹھی رہے لیلیٰ مرے آگے

نظر برنی

ان کے گناہ کیا کہیں کس کس کے سر گئے

تم کو خبر نہیں کئی استاد مر گئے

ساغر خیامی

درگت بنے ہے چائے میں بسکٹ کی جس طرح

شادی کے بعد لوگو وہی میرا حال ہے

نشتر امروہوی

داڑھی کا نام لے کے ہمیں کیوں ہو ٹوکتی

داڑھی کوئی بریک ہے جو سائیکل کو روکتی

عادل لکھنوی

ایک قیدی صبح کو پھانسی لگا کر مر گیا

رات بھر غزلیں سنائیں اس کو تھانے دار نے

ساغر خیامی

پتہ ہوتا تو نہ کرتا کبھی کوئی نیکی

تمہیں جنت میں ملو گی مجھے معلوم نہ تھا

روحی کنجاہی

عزت ہے گدھوں کی نہ ٹھکانہ ہے گدھوں کا

لیڈر یہی کہتا ہے زمانہ ہے گدھوں کا

ہرفن لکھنوی

نام کے ساتھ ایک دو الفاظ کی دم چاہیئے

شعر پھیکا ہی سہی لیکن ترنم چاہیئے

حاجی لق لق

ہمارے لال کو درکار ہے وہی لڑکی

کہ جس کا باپ پولس میں ہو کم سے کم ڈپٹی

ساغر خیامی

الیکشن پھر وہ ذی الحج کے مہینے میں کرائیں گے

تو کیا دو دانت کے ووٹر کی پھر قربانیاں ہوں گی

خالد عرفان

جو اپنا بھائی ہے رہتا ہے وہ پاؤں کی ٹھوکر میں

مگر جورو کا بھائی تو گلے کا ہار ہوتا ہے

ظفر کمالی

Jashn-e-Rekhta 10th Edition | 5-6-7 December Get Tickets Here

بولیے