کھلے ہیں پھول پیڑوں پر
میں ان کے پاس بیٹھا ہوں
لیے مینا کو پہلو میں
اکیلے بادہ نوشی کر رہا ہوں میں
کہاں ہیں میرے ساتھی ہاں کہاں ہیں سب مرے ساتھی
وہ لو مہتاب مجھ کو دیکھتا ہے آسمانوں سے
درخشانی کو اس کی دیکھ کر میں نے اٹھایا ہاتھ میں ساغر
پکار اٹھا
یہ دیکھو آگے آگے میرے لرزاں ہے مرا سایہ
نہیں ہم تین ہیں ہم تین ہیں تنہا نہیں ہوں میں
اگرچہ ماہ رخشاں بادہ نوشی کر نہیں سکتا
مرے ہر طرف سایہ بھی مرا بس رقص کرتا ہے
مگر ہم آج سب ساتھی ہیں تینوں تینوں ساتھی ہیں
شرابی ماہ رخشاں اور مرا سایہ
میں گاتا ہوں مئے وحشی فضاؤں میں خراماں ہے
میں رقصاں ہوں مرا سایہ بھی ہر سو لڑکھڑاتا ہے
ابھی بیدار ہیں ہم آؤ محو عیش ہو جائیں
بس اک میٹھی سی مدہوشی میں ہی اس درجہ قوت ہے
کہ وہ ہم کو جدا کر دے
چلو ہم آج اک اس قسم کا عہد وفا باندھیں
کہ یہ انسان جو فانی ہیں اس کو جان سکتے ہی نہیں ہرگز
ہم اکثر اس جگہ آ کر ملیں گے شام کے نم دار لمحوں میں
کھلی پھیلی ہوئی بھیگی ہوئی رنگیں فضاؤں میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.