پرانے زمانے میں کونکن دیس میں بڑے عالم رہا کرتے تھے۔ ایک وقت تھا جب وہاں ودھوا راجن نامی ایک شاعر بھی رہا کرتا تھا۔ ایک اچھا شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ دولت مند بھی کافی تھا۔ لیکن ایک بار سیہ یادری دیس کے راجہ نے کونکن پر ایک بھاری فوج لے کر چڑھائی کر دی۔ لڑائی میں کونکن والے ہار گئے۔ ودھوا راجن تھا تو ایک دولت مند شاعر لیکن ملک کی آبرو بچانے کی خاطر سپاہی بن کر سیہ یادری فوج سے نبرد آزما ہوا۔ کونکن کی شکست کے بعد وہ بہت دن تک ادھر ادھر بھٹکتا رہا۔ چلتے چلتے تھک کر چور ہو گیا تھا۔ اسے بھوک بھی بڑے زور سے لگی تھی اور دوسری رات بھی ہونے کو آ رہی تھی اسی لیے وہ جلدی جلدی چل کر ایک گاؤں میں پہنچا اور ایک گھر کا دروازہ کھٹکھٹانے لگا۔ ایک بڑھیا نے دروازہ کھولا۔
وہ مارے بھوک کے بےچین ہو رہا تھا۔ بےچینی کے اس عالم میں ہی اس نے کہا۔ ’’نانی! بھوک کے مارے مرا جا رہا ہوں۔ تھوڑا سا مانڈو دے دو‘‘۔
بڑھیا بھی بڑی کائیاں تھی اور کنجوس بھی۔ بولی۔ ’’بیٹا! میں بھی کئی دن سے بھوک سے مری جا رہی ہوں‘‘۔
یہ سراسر جھوٹ تھا۔ ودھوا راجن شاعر تو تھا ہی۔ اس نے اپنے دل میں بہت سی باتوں کا تصور کر لیا اور ہونٹوں ہی ہونٹوں میں کچھ گنگناتے ہوئے فیصلہ کیا۔
اس نے بڑھیا سے کہا۔ ’’نانی! اگر کلہاڑی ہوتی تو کچھ نہ کچھ پکایا ہی جا سکتا تھا!‘‘
’’کلہاڑی! میں نے تو کبھی ایسا نہیں سنا کہ کلہاڑی سے کھانا بھی بن سکتا ہے‘‘۔ بڑھیا بےقرار ہوکر بولی۔
’’اچھا! نہیں سنا ہوگا۔ اسے رہنے دو۔ لیکن اب ایک ہنڈیا اور ایک موسل دے دیں تو کمال کر کے دکھا سکتا ہوں‘‘۔ ودھوا راجن نے کہا۔
بڑھیا دانتوں تلے انگلی دبا کر رہ گئی اور دوسرے ہی لمحہ اس نے موسل اور ہنڈیا ودھوا راجن کو تھما دی۔
ودھوا راجن نے موسل کو دھوکر ہنڈیا میں رکھا اور اس میں پانی ڈال کر چولھے میں آگ جلا دی۔ تھوڑی دیرمیں اس نے اسے چکھنے کا بہانہ کیا۔ پھر وہ بڑھیا سے بولا۔ ’’نانی! اگر آج تھوڑا نمک ہوتا تو کیا ہی اچھا ہوتا‘‘۔
’’ٹھہر بیٹا! میں نمک ابھی لائے دیتی ہوں‘‘۔ بڑھیا یہ کہہ کر اندر گئی اور نمک لاکر دے دیا۔
ودھوا راجن نے نمک ہانڈی میں ڈال دیا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے کہا ’’اب مجھے کچھ نہیں چاہئے۔ صرف دو مٹھی چاول کی کسر ہے!‘‘
’’چاول کی کیا بات ہے بیٹا۔ میں ابھی لاتی ہوں‘‘۔ بڑھیا یہ کہتے ہوئے اٹھی اور آن واحد میں تھوڑے سے چاول بھی لاکر دے دیئے۔ اس طرح ودھوا راجن نے چاول پکا لیے۔ پھر انہیں چکھ کر کہا۔ ’’نانی! اب اگر میں تھوڑا سا مکھن ڈال دیا جائے تو کیا کہنے‘‘۔
تبھی بڑھیا نے مکھن بھی لاکر دے دیا۔ ودھوا راجن نے پکے ہوئے چاول میں مکھن ڈال دیا۔
تھوڑی دیر بعد اس نے چولہے سے ہانڈی اتاری اور بڑھیا سے مخاطب ہوکر کہا۔ ’’اب انہیں چکھ کر نہ دیکھوگی نانی!‘‘
’’ہاں ہاں کیوں نہیں‘‘۔ بڑھیا نے بڑے شوق سے چاول چکھے اور بولی ’’کیا بڑھیا چاول پکے ہیں! مجھے معلوم نہ تھا کہ موسل کے چاول اتنے اچھے پک سکتے ہیں۔ تب تو بیٹا کلہاڑی کے چاول تو بہت عمدہ ہوتے ہوں گے‘‘۔
ودھورا راجن چپ چاپ چاول کھانے میں مصروف رہا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.