جہاں میرے نہ ہونے کا نشاں پھیلا ہوا ہے
جہاں میرے نہ ہونے کا نشاں پھیلا ہوا ہے
سمجھتا ہوں غبار آسماں پھیلا ہوا ہے
میں اس کو دیکھنے اور بھول جانے میں مگن ہوں
مرے آگے جو یہ خواب رواں پھیلا ہوا ہے
انہی دو حیرتوں کے درمیاں موجود ہوں میں
سر آب یقیں عکس گماں پھیلا ہوا ہے
رہائی کی کوئی صورت نکلنی چاہئے اب
زمیں سہمی ہوئی ہے اور دھواں پھیلا ہوا ہے
کوئی اندازہ کر سکتا ہے کیا اس کا کہ آخر
کہاں تک سایۂ عہد زیاں پھیلا ہوا ہے
کہاں ڈوبے کدھر ابھرے بدن کی ناؤ دیکھیں
کہ اتنی دور تک دریائے جاں پھیلا ہوا ہے
میں دل سے بھاگ کر جا بھی کہاں سکتا ہوں آخر
مرے ہر سو یہ دشت بے اماں پھیلا ہوا ہے
مجھے کچھ بھی نہیں معلوم اور اندر ہی اندر
لہو میں ایک دست رائیگاں پھیلا ہوا ہے
ظفرؔ اب کے سخن کی سر زمیں پر ہے یہ موسم
بیاں غائب ہے اور رنگ بیاں پھیلا ہوا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.