وہی مرے خس و خاشاک سے نکلتا ہے
جو رنگ سا تری پوشاک سے نکلتا ہے
کرے گا کیوں نہ مرے بعد حسرتوں کا شمار
ترا بھی حصہ ان املاک سے نکلتا ہے
ہوا کے ساتھ جو اک بوسہ بھیجتا ہوں کبھی
تو شعلہ اس بدن پاک سے نکلتا ہے
ملے اگر نہ کہیں بھی وہ بے لباس بدن
تو میرے دیدۂ نمناک سے نکلتا ہے
اتارتا ہے مجھے نیند کے نیستاں میں
ابھی وہ خواب رگ تاک سے نکلتا ہے
فصیل فہم کے اندر بھی کچھ نہیں موجود
نہ کوئی خیمۂ ادراک سے نکلتا ہے
دھوئیں کی طرح سے اک پھول میرے ہونے کا
کبھی زمیں کبھی افلاک سے نکلتا ہے
مرے سوا بھی کوئی ہے جو میرے ہوتے ہوئے
بدل بدل کے مری خاک سے نکلتا ہے
یہ معجزے سے کوئی کم نہیں ظفرؔ اپنا
جو کام اس بت چالاک سے نکلتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.