عبدالرحمان احسان دہلوی کے اشعار
نماز اپنی اگرچہ کبھی قضا نہ ہوئی
ادا کسی کی جو دیکھی تو پھر ادا نہ ہوئی
گلے سے لگتے ہی جتنے گلے تھے بھول گئے
وگرنہ یاد تھیں ہم کو شکایتیں کیا کیا
آگ اس دل لگی کو لگ جائے
دل لگی آگ پھر لگانے لگی
بہ وقت بوسۂ لب کاش یہ دل کامراں ہوتا
زباں اس بد زباں کی منہ میں اور میں زباں ہوتا
یارا ہے کہاں اتنا کہ اس یار کو یارو
میں یہ کہوں اے یار ہے تو یار ہمارا
دل ربا تجھ سا جو دل لینے میں عیاری کرے
پھر کوئی دلی میں کیا دل کی خبرداری کرے
یاد تو حق کی تجھے یاد ہے پر یاد رہے
یار دشوار ہے وہ یاد جو ہے یاد کا حق
کون ثانی شہر میں اس میرے ماہ پارے کی ہے
چاند سی صورت دوپٹہ سر پہ یک تارے کا ہے
دل میں تم ہو نہ جلاؤ مرے دل کو دیکھو
میرا نقصان نہیں اپنا زیاں کیجئے گا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کس کو اس کا غم ہو جس دم غم سے وہ زاری کرے
ہاں مگر تیرا ہی غم عاشق کی غم خواری کرے
چشم مست اس کی یاد آنے لگی
پھر زباں میری لڑکھڑانے لگی
جاں کنی پیشہ ہو جس کا وہ لہک ہے تیرا
تجھ پہ شیریں ہے نہ خسروؔ کا نہ فرہاد کا حق
شب پئے وہ شراب نکلا ہے
رات کو آفتاب نکلا ہے
ایک بوسہ سے مراد دل ناشاد تو دو
کچھ نہ دو ہاتھ سے پر منہ سے مری داد تو دو
کچھ تمہیں ترس خدا بھی ہے خدا کی واسطے
لے چلو مجھ کو مسلمانو اسی کافر کے پاس
کیوں نہ رک رک کے آئے دم میرا
تجھ کو دیکھا رکا رکا میں نے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جو پوچھا میں نے دل زلفوں میں جوڑے میں کہاں باندھا
کہا جب چور تھا اپنا جہاں باندھا وہاں باندھا
بہت سے خون خرابے مچیں گے خانہ خراب
یہی ہے رنگ اگر تیرے پان کھانے کا
-
موضوع : پان
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
گر ہے دنیا کی طلب زاہد مکار سے مل
دیں ہے مطلوب تو اس طالب دیدار سے مل
مزے کی بات تو یہ ہے کہ بے مزا ہے وہ دل
تمہاری بے مزگی کا جسے مزہ نا لگے
چین اس دل کو نہ اک آن ترے بن آیا
دن گیا رات ہوئی رات ہوئی دن آیا
کیوں تو روتا ہے دلا آنے دے روز وصل کو
اس قدر چھیڑوں گا ان کو وہ بھی رو کر جائیں گے
ڈر اپنے پیر سے بی پیر پیر پیر نہ کر
کہ تیرے پیر کے وعدہ نے مجھ کو پیر کیا
اتوار کو آنا ترا معلوم کہ اک عمر
بے پیر ترے ہم نے ہی اطوار کو دیکھا
کیوں کر نہ مے پیوں میں قرآں کو دیکھ زاہد
وہاں واشربوا ہے آیا لا تشربوا نہ آیا
پلکوں سے گرے ہے اشک ٹپ ٹپ
پٹ سے وہ لگا ہوا کھڑا ہے
آنکھیں مری پھوٹیں تری آنکھوں کے بغیر آہ
گر میں نے کبھی نرگس بیمار کو دیکھا
اگر بیٹھا ہی ناصح منہ کو سی بیٹھ
وگرنہ یاں سے اٹھ اے بے حیا جا
تنخواہ ایک بوسہ ہے تس پر یہ حجتیں
ہے نا دہند آپ کی سرکار بے طرح
نہ پایا گاہ قابو آہ میں نے ہاتھ جب ڈالا
نکالا بیر مجھ سے جب ترے پستاں کا منہ کالا
نصیب اس کے شراب بہشت ہووے مدام
ہوا ہے جو کوئی موجد شراب خانے کا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
گریباں چاک ہے ہاتھوں میں ظالم تیرا داماں ہے
کہ اس دامن تلک ہی منزل چاک گریباں ہے
اپنی نا فہمی سے میں اور نہ کچھ کر بیٹھوں
اس طرح سے تمہیں جائز نہیں اعجاز سے رمز
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
مے کدہ میں عشق کے کچھ سرسری جانا نہیں
کاسۂ سر کو یہاں گردش ہے پیمانے کی طرح
مری بات چیت اس سے احساںؔ کہاں ہے
نہ اس کا دہاں ہے نہ میری زباں ہے
انار خلد کو تو رکھ کہ میں پسند نہیں
کچیں وہ یار کی رشک انار اے واعظ
وہ آگ لگی پان چبائے سے کسو کی
اب تک نہیں بجھتی ہے بجھائے سے کسو کی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
الفت میں تیرا رونا احساںؔ بہت بجا ہے
ہر وقت مینہ کا ہونا یہ رحمت خدا ہے
فلفل خال ملاحت کے تصور میں ترے
چرچراہٹ ہے کباب دل بریان میں کیا
نہ میری بات کو پوچھے ہے نہ دیکھے ہے ادھر
ایک دن یہ نہ کیا عاشق بیمار کہ تو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
تری آن پہ غش ہوں ہر آن ظالم
تو اک آن لیکن نہ یاں آن نکلا
خاک آب گریہ سے آتش بجھے ناچار ہم
جانب کوئے بتاں جوں باد صرصر جائیں گے
محتسب بھی پی کے مے لوٹے ہے میخانے میں آج
ہاتھ لا پیر مغاں یہ لوٹنے کی جائے ہے
تو بھی اس تک ہے رسائی مجھے احساں دشوار
دام لوں گر پر جبریل برائے پرواز
غنچہ کو میں نے چوما لایا دہن کو آگے
بوسہ نہ مجھ کو دیوے وہ نکتہ یاب کیوں کر
اس لب بام سے اے صرصر فرقت تو بتا
مثل تنکے کے مرا یہ تن لاغر پھینکا
آہ پیچاں اپنی ایسی ہے کہ جس کے پیچ کو
پیچواں نیچا بھی تیرا دیکھ کر خم کھائے ہے