Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Ahmad Mushtaq's Photo'

پاکستان کے معروف ترین اور محترم جدید شاعروں میں سے ایک، اپنے نوکلاسیکی آہنگ کے لیے معروف

پاکستان کے معروف ترین اور محترم جدید شاعروں میں سے ایک، اپنے نوکلاسیکی آہنگ کے لیے معروف

احمد مشتاق کے اشعار

43.2K
Favorite

باعتبار

یار سب جمع ہوئے رات کی خاموشی میں

کوئی رو کر تو کوئی بال بنا کر آیا

کسی جانب نہیں کھلتے دریچے

کہیں جاتا نہیں رستہ ہمارا

عمر بھر دکھ سہتے سہتے آخر اتنا تو ہوا

اپنی چپ کو دیکھ لیتا ہوں صدا بنتے ہوئے

بہتا آنسو ایک جھلک میں کتنے روپ دکھائے گا

آنکھ سے ہو کر گال بھگو کر مٹی میں مل جائے گا

اک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے

اور اب کوئی کہیں کوئی کہیں رہتا ہے

مل ہی جائے گا کبھی دل کو یقیں رہتا ہے

وہ اسی شہر کی گلیوں میں کہیں رہتا ہے

چھت سے کچھ قہقہے ابھی تک

جالوں کی طرح لٹک رہے ہیں

ملنے کی یہ کون گھڑی تھی

باہر ہجر کی رات کھڑی تھی

کوئی تصویر مکمل نہیں ہونے پاتی

دھوپ دیتے ہیں تو سایا نہیں رہنے دیتے

یہ پانی خامشی سے بہہ رہا ہے

اسے دیکھیں کہ اس میں ڈوب جائیں

جہاں ڈالے تھے اس نے دھوپ میں کپڑے سکھانے کو

ٹپکتی ہیں ابھی تک رسیاں آہستہ آہستہ

فضائے دل پہ کہیں چھا نہ جائے یاس کا رنگ

کہاں ہو تم کہ بدلنے لگا ہے گھاس کا رنگ

ترے آنے کا دن ہے تیرے رستے میں بچھانے کو

چمکتی دھوپ میں سائے اکٹھے کر رہا ہوں میں

ہوتی ہے شام آنکھ سے آنسو رواں ہوئے

یہ وقت قیدیوں کی رہائی کا وقت ہے

تم آئے ہو تمہیں بھی آزما کر دیکھ لیتا ہوں

تمہارے ساتھ بھی کچھ دور جا کر دیکھ لیتا ہوں

وہی گلشن ہے لیکن وقت کی پرواز تو دیکھو

کوئی طائر نہیں پچھلے برس کے آشیانوں میں

دکھ کے سفر پہ دل کو روانہ تو کر دیا

اب ساری عمر ہاتھ ہلاتے رہیں گے ہم

مجھے معلوم ہے اہل وفا پر کیا گزرتی ہے

سمجھ کر سوچ کر تجھ سے محبت کر رہا ہوں میں

گزرے ہزار بادل پلکوں کے سائے سائے

اترے ہزار سورج اک شہ نشین دل پر

جھلملاتے رہے وہ خواب جو پورے نہ ہوئے

درد بیدار ٹپکتا رہا آنسو آنسو

دل بھر آیا کاغذ خالی کی صورت دیکھ کر

جن کو لکھنا تھا وہ سب باتیں زبانی ہو گئیں

وہاں سلام کو آتی ہے ننگے پاؤں بہار

کھلے تھے پھول جہاں تیرے مسکرانے سے

اہل ہوس تو خیر ہوس میں ہوئے ذلیل

وہ بھی ہوئے خراب، محبت جنہوں نے کی

عشق میں کون بتا سکتا ہے

کس نے کس سے سچ بولا ہے

وہ جو رات مجھ کو بڑے ادب سے سلام کر کے چلا گیا

اسے کیا خبر مرے دل میں بھی کبھی آرزوئے گناہ تھی

تو نے ہی تو چاہا تھا کہ ملتا رہوں تجھ سے

تیری یہی مرضی ہے تو اچھا نہیں ملتا

دھوئیں سے آسماں کا رنگ میلا ہوتا جاتا ہے

ہرے جنگل بدلتے جا رہے ہیں کارخانوں میں

ایک لمحے میں بکھر جاتا ہے تانا بانا

اور پھر عمر گزر جاتی ہے یکجائی میں

جو مقدر تھا اسے تو روکنا بس میں نہ تھا

ان کا کیا کرتے جو باتیں ناگہانی ہو گئیں

ہم اپنی دھوپ میں بیٹھے ہیں مشتاقؔ

ہمارے ساتھ ہے سایہ ہمارا

یہ تنہا رات یہ گہری فضائیں

اسے ڈھونڈیں کہ اس کو بھول جائیں

ہم ان کو سوچ میں گم دیکھ کر واپس چلے آئے

وہ اپنے دھیان میں بیٹھے ہوئے اچھے لگے ہم کو

تشریح

یہ شعر احمد مشتاق کے بہترین اشعار میں سے ایک ہے۔ شاعر نے الفاظ سے جو کیفیت پیدا کی ہے اس کا جواب نہیں۔ اس میں سوچ کی مناسبت سے گم اور دونوں کی رعایت سے دھیان نے مضمون میں جان ڈال دی ہے۔ شاعر اپنے محبوب سے ملنے جاتے ہیں مگر ان کا محبوب کسی سوچ میں گم بیٹھا ہے۔ چنانچہ شاعر اپنے محبوب کو اس حال میں دیکھ کر واپس چلے آتے ہیں کیونکہ انہیں محبوب کا اپنے دھیان میں بیٹھنا اچھا لگتا ہے۔ اس شعر میں عشق کی شدت کا احساس ہوتا ہے۔ کوئی عام مزاج کا عاشق ہوتا تو اپنے محبوب سے وصل کا موقع اس بات پر نہیں گنواتا کہ اس کا محبوب اپنے دھیان میں گم ہے۔ مگر یہاں عاشق کو اپنے محبوب کی یہ ادا بھی پسند آتی ہے اور وہ اپنے محبوب کو دھیان کی حالت میں چھوڑ کر واپس چلا آتا۔

شفق سوپوری

بھول گئی وہ شکل بھی آخر

کب تک یاد کوئی رہتا ہے

پانی میں عکس اور کسی آسماں کا ہے

یہ ناؤ کون سی ہے یہ دریا کہاں کا ہے

چاند بھی نکلا ستارے بھی برابر نکلے

مجھ سے اچھے تو شب غم کے مقدر نکلے

رونے لگتا ہوں محبت میں تو کہتا ہے کوئی

کیا ترے اشکوں سے یہ جنگل ہرا ہو جائے گا

نیندوں میں پھر رہا ہوں اسے ڈھونڈھتا ہوا

شامل جو ایک خواب مرے رتجگے میں تھا

بلا کی چمک اس کے چہرہ پہ تھی

مجھے کیا خبر تھی کہ مر جائے گا

جیسے پو پھٹ رہی ہو جنگل میں

یوں کوئی مسکرائے جاتا ہے

ہمارا کیا ہے جو ہوتا ہے جی اداس بہت

تو گل تراشتے ہیں تتلیاں بناتے ہیں

چپ کہیں اور لیے پھرتی تھی باتیں کہیں اور

دن کہیں اور گزرتے تھے تو راتیں کہیں اور

وہ وقت بھی آتا ہے جب آنکھوں میں ہماری

پھرتی ہیں وہ شکلیں جنہیں دیکھا نہیں ہوتا

تو اگر پاس نہیں ہے کہیں موجود تو ہے

تیرے ہونے سے بڑے کام ہمارے نکلے

روز ملنے پہ بھی لگتا تھا کہ جگ بیت گئے

عشق میں وقت کا احساس نہیں رہتا ہے

بہت اداس ہو تم اور میں بھی بیٹھا ہوں

گئے دنوں کی کمر سے کمر لگائے ہوئے

اب شغل ہے یہی دل ایذا پسند کا

جو زخم بھر گیا ہے نشاں اس کا دیکھنا

جہان عشق سے ہم سرسری نہیں گزرے

یہ وہ جہاں ہے جہاں سرسری نہیں کوئی شے

تنہائی میں کرنی تو ہے اک بات کسی سے

لیکن وہ کسی وقت اکیلا نہیں ہوتا

موت خاموشی ہے چپ رہنے سے چپ لگ جائے گی

زندگی آواز ہے باتیں کرو باتیں کرو

کھویا ہے کچھ ضرور جو اس کی تلاش میں

ہر چیز کو ادھر سے ادھر کر رہے ہیں ہم

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے