Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Aziz Nabeel's Photo'

عزیز نبیل

1976 | قطر

قطر میں مقیم معروف شاعر

قطر میں مقیم معروف شاعر

عزیز نبیل کے اشعار

9.2K
Favorite

باعتبار

پھر نئے سال کی سرحد پہ کھڑے ہیں ہم لوگ

راکھ ہو جائے گا یہ سال بھی حیرت کیسی

سارے سپنے باندھ رکھے ہیں گٹھری میں

یہ گٹھری بھی اوروں میں بٹ جائے گی

بہکا تو بہت بہکا سنبھلا تو ولی ٹھہرا

اس چاک گریباں کا ہر رنگ نرالا تھا

وہ ایک راز! جو مدت سے راز تھا ہی نہیں

اس ایک راز سے پردہ اٹھا دیا گیا ہے

ایک تختی امن کے پیغام کی

ٹانگ دیجے اونچے میناروں کے بیچ

چپکے چپکے وہ پڑھ رہا ہے مجھے

دھیرے دھیرے بدل رہا ہوں میں

کسی سے ذہن جو ملتا تو گفتگو کرتے

ہجوم شہر میں تنہا تھے ہم، بھٹک رہے تھے

تمام شہر کو تاریکیوں سے شکوہ ہے

مگر چراغ کی بیعت سے خوف آتا ہے

نبیلؔ ایسا کرو تم بھی بھول جاؤ اسے

وہ شخص اپنی ہر اک بات سے مکر چکا ہے

ہم قافلے سے بچھڑے ہوئے ہیں مگر نبیلؔ

اک راستہ الگ سے نکالے ہوئے تو ہیں

چاند تارے اک دیا اور رات کا کومل بدن

صبح دم بکھرے پڑے تھے چار سو میری طرح

گزر رہا ہوں کسی خواب کے علاقے سے

زمیں سمیٹے ہوئے آسماں اٹھائے ہوئے

میں کسی آنکھ سے چھلکا ہوا آنسو ہوں نبیلؔ

میری تائید ہی کیا میری بغاوت کیسی

سانس لیتا ہوا ہر رنگ نظر آئے گا

تم کسی روز مرے رنگ میں آؤ تو سہی

مسافروں سے کہو اپنی پیاس باندھ رکھیں

سفر کی روح میں صحرا کوئی اتر چکا ہے

نبیلؔ اس عشق میں تم جیت بھی جاؤ تو کیا ہوگا

یہ ایسی جیت ہے پہلو میں جس کے ہار چلتی ہے

میں چھپ رہا ہوں کہ جانے کس دم

اتار ڈالے لباس مجھ کو

قلم ہے ہاتھ میں کردار بھی مرے بس میں

اگر میں چاہوں کہانی بدل بھی سکتا ہوں

مرا طریقہ ذرا مختلف ہے سورج سے

جہاں پہ ڈوبا وہیں سے ابھرنے والا ہوں

نہ جانے کیسی محرومی پس رفتار چلتی ہے

ہمیشہ میرے آگے آگے اک دیوار چلتی ہے

یوں لگتا ہے ساری دنیا بند ہے میری مٹھی میں

جس دم میری انگلی پکڑے میرا بیٹا چلتا ہے

یہ بوندیں پہلی بارش کی یہ سوندھی خوشبو ماٹی کی

اک کوئل باغ میں کوکی ہے آواز یہاں تک آئی ہے

یہ کس کے لمس کی بارش میں رنگ رنگ ہوں میں

یہ کون مجھ سے گزرتا ہے آب و تاب کے ساتھ

عادتاً سلجھا رہا تھا گتھیاں کل رات میں

دل پریشاں تھا بہت اور مسئلہ کوئی نہ تھا

روز دستک سی کوئی دیتا ہے سینے میں نبیلؔ

روز مجھ میں کسی آواز کے پر کھلتے ہیں

کیا ضروری ہے کہ ہر بات تمہاری مانوں

بات اپنی بھی کئی بار نہ مانی میں نے

سیکڑوں رنگوں کی بارش ہو چکے گی اس کے بعد

عطر میں بھیگی ہوئی شاموں کا منظر آئے گا

ہاتھ خالی نہ تھے جب گھر سے روانہ ہوا میں

سب نے جھولی میں مری اپنی ضرورت رکھ دی

میں دسترس سے تمہاری نکل بھی سکتا ہوں

یہ سوچ لو کہ میں رستہ بدل بھی سکتا ہوں

شاعری عشق غم رزق کتابیں گھر بار

کتنی سمتوں میں بہ یک وقت گزر ہے میرا

بکھر رہی تھی ہواؤں میں اعتبار کی راکھ

اور انتظار کی مٹھی میں زندگی کم تھی

یوں ہی وہ بھی پوچھتا ہے تم کیسے ہو کس حال میں ہو

یوں ہی میں بھی کہہ دیتا ہوں سب کچھ اچھا چلتا ہے

بجھی بجھی سی یہ باتیں دھواں دھواں لہجہ

کسی عذاب میں اندر سے جل رہے ہو کیا

میاں تم دوست بن کر جو ہمارے ساتھ کرتے ہو

وہی سب کچھ ہمارے دشمن جانی بھی کرتے ہیں

اک تعارف تو ضروری ہے سر راہ جنوں

دشت والے نئے برباد کو کب جانتے ہیں

قید کر کے گھر کے اندر اپنی تنہائی کو میں

مسکراتا گنگناتا گھر سے باہر آ گیا

دھوپ کی ٹوٹی ہوئی تختی پہ بارش نے لکھا

گھر کے اندر بیٹھ کر موسم کا اندازہ نہ کر

پرندے جھیل پر اک ربط روحانی میں آئے ہیں

کسی بچھڑے ہوئے موسم کی حیرانی میں آئے ہیں

وہ جا رہا تھا تو روکا نہیں اسے تم نے

وہ جا چکا ہے تو اب ہاتھ مل رہے ہو کیا

عجب روٹھے ہوئے لوگوں سے اپنی آشنائی ہے

نہ ملنے کا ہمیشہ اک بہانہ ساتھ رکھتے ہیں

اسی کی چشم کشادہ میں رنگ بنتے ہیں

اسی پہ ختم ہے قامت بھی مہ جبینی بھی

مسلسل دھند ہلکی روشنی بھیگے ہوئے منظر

یہ کن برسی ہوئی آنکھوں کی نگرانی میں آئے ہیں

میری مٹی میں محبت ہی محبت ہے نبیلؔ

چھو کے دیکھو تو سہی ہاتھ لگاؤ تو سہی

طلوع صبح سے پہلے غروب شام کے بعد

ٹھہر گئی مرے سینے میں رات چلتی ہوئی

آنے والوں کی محبت ہی بہت ہے مجھ کو

جانے والوں سے کہاں کوئی شکایت ہے مجھے

چراغ کی تھرتھراتی لو میں ہر اوس قطرے میں ہر کرن میں

تمہاری آنکھیں کہاں نہیں تھیں تمہارا چہرہ کہاں نہیں تھا

جان لیتا ہوں ہر اک چہرے کے پوشیدہ نقوش

تم سمجھتے ہو کہ میں کچھ بھی نہیں جانتا ہوں

سوال تھا کہ جستجو عظیم ہے کہ آرزو

سو یوں ہوا کہ عمر بھر جواب لکھ رہے تھے ہم

اب ہمیں چاک پہ رکھ یا خس و خاشاک سمجھ

کوزہ گر ہم تری آواز پہ آئے ہوئے ہیں

جانے والا سال تو پھر بھی جیسے تیسے بیت گیا

اس دنیا کو رکھنا مولا آنے والے سال میں خوش

Recitation

بولیے