Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Meer Hasan's Photo'

میر حسن

1717 - 1786 | لکھنؤ, انڈیا

مثنوی کے انتہائی مقبول شاعر، 'سحر البیان' کے خالق

مثنوی کے انتہائی مقبول شاعر، 'سحر البیان' کے خالق

میر حسن کے اشعار

18.7K
Favorite

باعتبار

سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں

گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں

دوستی کس سے نہ تھی کس سے مجھے پیار نہ تھا

جب برے وقت پہ دیکھا تو کوئی یار نہ تھا

جو کوئی آوے ہے نزدیک ہی بیٹھے ہے ترے

ہم کہاں تک ترے پہلو سے سرکتے جاویں

آساں نہ سمجھیو تم نخوت سے پاک ہونا

اک عمر کھو کے ہم نے سیکھا ہے خاک ہونا

آشنا بے وفا نہیں ہوتا

بے وفا آشنا نہیں ہوتا

اور کچھ تحفہ نہ تھا جو لاتے ہم تیرے نیاز

ایک دو آنسو تھے آنکھوں میں سو بھر لائیں ہیں ہم

غیر کو تم نہ آنکھ بھر دیکھو

کیا غضب کرتے ہو ادھر دیکھو

ہے یہی شوق شہادت کا اگر دل میں تو عشق

لے ہی پہنچے گا ہمیں بھی تری شمشیر تلک

جان و دل ہیں اداس سے میرے

اٹھ گیا کون پاس سے میرے

اتنے آنسو تو نہ تھے دیدۂ تر کے آگے

اب تو پانی ہی بھرا رہتا ہے گھر کے آگے

اظہار خموشی میں ہے سو طرح کی فریاد

ظاہر کا یہ پردہ ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

قسمت نے دور ایسا ہی پھینکا ہمیں کہ ہم

پھر جیتے جی پہنچ نہ سکے اپنے یار تک

گو بھلے سب ہیں اور میں ہوں برا

کیا بھلوں میں برا نہیں ہوتا

وصل ہوتا ہے جن کو دنیا میں

یا رب ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں

ہم کو بھی دشمنی سے ترے کام کچھ نہیں

تجھ کو اگر ہمارے نہیں پیار سے غرض

کیوں ان دنوں حسنؔ تو اتنا جھٹک گیا ہے

ظالم کہیں ترا دل کیا پھر اٹک گیا ہے

ٹک دیکھ لیں چمن کو چلو لالہ زار تک

کیا جانے پھر جئیں نہ جئیں ہم بہار تک

سر کو نہ پھینک اپنے فلک پر غرور سے

تو خاک سے بنا ہے ترا گھر زمین ہے

میں نے جو کہا مجھ پہ کیا کیا نہ ستم گزرا

بولا کہ ابے تیرا روتے ہی جنم گزرا

دنیا ہے سنبھل کے دل لگانا

یاں لوگ عجب عجب ملیں گے

عشق کا اب مرتبہ پہنچا مقابل حسن کے

بن گئے بت ہم بھی آخر اس صنم کی یاد میں

تو خفا مجھ سے ہو تو ہو لیکن

میں تو تجھ سے خفا نہیں ہوتا

فرقت کی شب میں آج کی پھر کیا جلاویں گے

دل کا دیا تھا ایک سو کل ہی جلا دیا

مت پونچھ ابروئے عرق آلود ہاتھ سے

لازم ہے احتیاط کہ ہے آب دار تیغ

نہ غرض مجھ کو ہے کافر سے نہ دیں دار سے کام

روز و شب ہے مجھے اس کاکل خم دار سے کام

اس کو امید نہیں ہے کبھی پھر بسنے کے

اور ویرانوں سے اس دل کا ہے ویرانہ جدا

جس طرح چاہا لکھیں دل نے کہا یوں مت لکھ

سیکڑوں بار دھرا اور اٹھایا کاغذ

میں تو اس ڈر سے کچھ نہیں کہتا

تو مبادا اداس ہو جاوے

کر کے بسمل نہ تو نے پھر دیکھا

بس اسی غم میں جان دی ہم نے

شب اول تو توقع پہ ترے وعدے کے

سہل ہوتی ہے بلا ہوتی ہے پر آخر شب

نوجوانی کی دید کر لیجے

اپنے موسم کی عید کر لیجے

بس گیا جب سے یار آنکھوں میں

تب سے پھولی بہار آنکھوں میں

لگایا محبت کا جب یاں شجر

شجر لگ گیا اور ثمر جل گیا

تو رہا دل میں دل رہا تجھ میں

تس پہ تیرا ملاپ ہو نہ سکا

میں نے پایا نہ اسے شہر میں نہ صحرا میں

تو نے لے جا کے مرے دل کو کہاں چھوڑ دیا

کوچۂ یار ہے اور دیر ہے اور کعبہ ہے

دیکھیے عشق ہمیں آہ کدھر لاوے گا

جب سے جدا ہوا ہے وہ شوخ تب سے مجھ کو

نت آہ آہ کرنا اور زار زار رونا

میں بھی اک معنیٔ پیچیدہ عجب تھا کہ حسنؔ

گفتگو میری نہ پہنچی کبھی تقریر تلک

درد کرتا ہے تپ عشق کی شدت سے مرا

سر جدا سینہ جدا قلب جدا شانہ جدا

اس شوخ کے جانے سے عجب حال ہے میرا

جیسے کوئی بھولے ہوئے پھرتا ہے کچھ اپنا

اثر ہووے نہ ہووے پر بلا سے جی تو بہلے گا

نکالا شغل تنہائی میں میں ناچار رونے کا

محبت کا رستہ عجب گرم تھا

قدم جب دھرا خاک پر جل گیا

خواہ کعبہ ہو کہ بت خانہ غرض ہم سے سن

جس طرف دل کی طبیعت ہو ادھر کو چلیے

تاکہ عبرت کریں اور غیر نہ دیکھیں تجھ کو

جی میں آتا ہے نکلوائیے دو چار کی آنکھ

ظلم کب تک کیجئے گا اس دل ناشاد پر

اب تو اس بندہ پہ ٹک کیجے کرم بندہ نواز

گزری ہے رات مجھ میں اور دل میں طرفہ صحبت

ایدھر تو میں نے کی آہ اودھر سے وہ کراہا

مت بخت خفتہ پر مرے ہنس اے رقیب تو

ہوگا ترے نصیب بھی یہ خواب دیکھنا

آہ تعظیم کو اٹھتی ہے مرے سینہ سے

دل پہ جب اس کی نگاہوں کے خدنگ آتے ہیں

جھوٹ موٹ ان سے میں کچھ مصلحتاً بولوں گا

سچ ہے تو بول نہ اٹھیو دل آگاہ کہ جھوٹ

ایک دم بھی ملا نہ ہم کو قرار

اس دل بے قرار کے ہاتھوں

Recitation

بولیے