معین شاداب کے اشعار
اس سے ملنے کی خوشی بعد میں دکھ دیتی ہے
جشن کے بعد کا سناٹا بہت کھلتا ہے
وہ وقت اور تھے کہ بزرگوں کی قدر تھی
اب ایک بوڑھا باپ بھرے گھر پہ بار ہے
سردی اور گرمی کے عذر نہیں چلتے
موسم دیکھ کے صاحب عشق نہیں ہوتا
-
موضوع : سردی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ذرا سی دیر کو تم اپنی آنکھیں دے دو مجھے
یہ دیکھنا ہے کہ میں تم کو کیسا لگتا ہوں
کسی کے ساتھ گزارا ہوا وہ اک لمحہ
اگر میں سوچنے بیٹھوں تو زندگی کم ہے
بہت سے درد تو ہم بانٹ بھی نہیں سکتے
بہت سے بوجھ اکیلے اٹھانے پڑتے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
تری نگاہ تو اس دور کی زکوۃ ہوئی
جو مستحق ہے اسی تک نہیں پہنچتی ہے
اس زاویے سے پیڑ لگایا ہے بھائی نے
آتا نہیں ذرا سا بھی سایہ مری طرف
یہ تیز دھوپ ہمیں کیسے سانولا کرتی
ہمارے سر پہ دعاؤں کا شامیانہ تھا
دل ایک ہے تو کئی بار کیوں لگایا جائے
بس ایک عشق بہت ہے اگر نبھایا جائے
تم شرافت کہاں بازار میں لے آئے ہو
یہ وہ سکہ ہے جو برسوں سے نہیں چلتا ہے
عمر بھر کو مرا ہونا بھی نہیں چاہتا وہ
مجھ کو آسانی سے کھونا بھی نہیں چاہتا وہ
کسی کو دل سے بھلانے میں دیر لگتی ہے
یہ کپڑے کمرے کے اندر سکھانے پڑتے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
مغالطے میں نہ رہیے گا کم نگاہی کے
ہمارا چشمہ نظر کا نہیں ہے دھوپ کا ہے
تجھ سے مل کر سب سے ناطے توڑ لیے تھے
ہم نے بادل دیکھ کے مٹکے پھوڑ لیے تھے
دل سے اتر جاؤں گا یہ معلوم نہیں تھا
میں تو اس کے دل میں اتر کر دیکھ رہا تھا
موجوں سے لڑتے وقت تو میں اس کے ساتھ تھا
ساحل پہ اس کے ہاتھ میں کوئی اور ہاتھ تھا
میں اس لئے بھی ذرا اس سے کم ہی ملتا ہوں
بہت ملو تو محبت سی ہونے لگتی ہے
یہ مرحلہ بھی کسی امتحاں سے کم تو نہیں
وہ شخص مجھ پہ بہت اعتبار کرتا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جنوں پہ کوئی برا وقت آ پڑا ہے کیا
دوانے اپنے گریبان کیسے سینے لگے
لمحہ بہ لمحہ پاؤں سے لپٹی ہیں ہجرتیں
کیسے لگاتے نام کی تختی مکان پر
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
قتل کا اتنا شور ہوا ہے
دیکھ رہا ہوں خود کو چھو کر
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
مندمل دل کا ہر اک زخم ہوا جاتا ہے
یہی سرمایہ تھا جو ختم ہوا جاتا ہے
نئے طرز کی کالونی میں سب کچھ ایک سا ہے
اپنا گھر بھی ہاتھ بڑی مشکل سے آتا ہے
صحافیوں کو کہاں حال دل سنا بیٹھے
یہ ایک بات کئی زاویوں سے لکھیں گے