Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

ناطق گلاوٹھی

1886 - 1969 | ناگپور, انڈیا

ناطق گلاوٹھی کے اشعار

5.5K
Favorite

باعتبار

تم ایسے اچھے کہ اچھے نہیں کسی کے ساتھ

میں وہ برا کہ کسی کا برا نہیں کرتا

کیا ارادے ہیں وحشت دل کے

کس سے ملنا ہے خاک میں مل کے

کس کو مہرباں کہئے کون مہرباں اپنا

وقت کی یہ باتیں ہیں وقت اب کہاں اپنا

ظاہر نہ تھا نہیں سہی لیکن ظہور تھا

کچھ کیوں نہ تھا جہان میں کچھ تو ضرور تھا

ہمارے عیب میں جس سے مدد ملے ہم کو

ہمیں ہے آج کل ایسے کسی ہنر کی تلاش

ہچکیوں پر ہو رہا ہے زندگی کا راگ ختم

جھٹکے دے کر تار توڑے جا رہے ہیں ساز کے

آئی ہوگی تو موت آئے گی

تم تو جاؤ مرا خدا حافظ

عمر بھر کا ساتھ مٹی میں ملا

ہم چلے اے جسم بے جاں الودع

ہمیں کم بخت احساس خودی اس در پہ لے بیٹھا

ہم اٹھ جاتے تو وہ پردہ بھی اٹھ جاتا جو حائل تھا

ریا کاری کے سجدے شیخ لے بیٹھیں گے مسجد کو

کسی دن دیکھنا ہو کر رہے گی سرنگوں وہ بھی

اب کہاں گفتگو محبت کی

ایسی باتیں ہوئے زمانہ ہوا

تمہاری بات کا اتنا ہے اعتبار ہمیں

کہ ایک بات نہیں اعتبار کے قابل

چال اور ہے دنیا کی ہمارا ہے چلن اور

وہ ساخت ہے کچھ اور یہ بے ساختہ پن اور

کچھ نہیں اچھا تو دنیا میں برا بھی کچھ نہیں

کیجیے سب کچھ مگر اپنی ضرورت دیکھ کر

سب کچھ مجھے مشکل ہے نہ پوچھو مری مشکل

آسان بھی ہو کام تو آساں نہیں ہوتا

ڈھونڈھتی ہے اضطراب شوق کی دنیا مجھے

آپ نے محفل سے اٹھوا کر کہاں رکھا مجھے

اے زندگی جنوں نہ سہی بے خودی سہی

تو کچھ بھی اپنی عقل سے پاگل اٹھا تو لا

مے کو مرے سرور سے حاصل سرور تھا

میں تھا نشہ میں چور نشہ مجھ میں چور تھا

ہمیں جو یاد ہے ہم تو اسی سے کام لیتے ہیں

کسی کا نام لینا ہو اسی کا نام لیتے ہیں

ہم تو مسجد سے بھی مایوس ہی آئے ناطقؔ

کوئی اللہ کا بندہ تو مسلماں ہوتا

وفا پر ناز ہم کو ان کو اپنی بے وفائی پر

کوئی منہ آئنہ میں دیکھتا ہے کوئی پانی میں

ہاں جان تو دیں گے مگر اے موت ابھی دم لے

ایسا نہ کہیں وہ کہ ہم آئے تو چلے آپ

رہ کے اچھا بھی کچھ بھلا نہ ہوا

میں برا ہو گیا برا نہ ہوا

مجھ سے ناراض ہیں جو لوگ وہ خوش ہیں ان سے

میں جدا چیز ہوں ناطقؔ مرے اشعار جدا

بے خود شوق ہوں آتا ہے خدا یاد مجھے

راستہ بھول کے بیٹھا ہوں صنم خانے کا

اب میں کیا تم سے اپنا حال کہوں

بخدا یاد بھی نہیں مجھ کو

غم و اندوہ کا لشکر بھی چلا آتا ہے

ایک گھوڑ دوڑ سی ہے عمر گریزاں کے قریب

ہم پاؤں بھی پڑتے ہیں تو اللہ رے نخوت

ہوتا ہے یہ ارشاد کہ پڑتے ہیں گلے آپ

ایسے بہتان لگائے کہ خدا یاد آیا

بت نے گھبرا کے کہا مجھ سے کہ قرآن اٹھا

اب جہاں میں باقی ہے آہ سے نشاں اپنا

اڑ گئے دھوئیں اپنے رہ گیا دھواں اپنا

اک حرف شکایت پر کیوں روٹھ کے جاتے ہو

جانے دو گئے شکوے آ جاؤ میں باز آیا

کیا کروں اے دل مایوس ذرا یہ تو بتا

کیا کیا کرتے ہیں صدموں سے ہراساں ہو کر

دوسروں کو کیا کہئے دوسری ہے دنیا ہی

ایک ایک اپنے کو ہم نے دوسرا پایا

کشتی ہے گھاٹ پر تو چلے کیوں نہ دور آج

کل بس چلے چلے نہ چلے چل اٹھا تو لا

ہو گئی آوارہ گردی بے گھری کی پردہ دار

کام جتنا ہم کو آتا تھا وہ کام آ ہی گیا

آ عمر رفتہ حشر کے دم خم بھی دیکھ لیں

طوفان زندگی کی وہ ہلچل اٹھا تو لا

گھر بنانے کی بڑی فکر ہے دنیا میں ہمیں

صاحب خانہ بنے جاتے ہیں مہماں ہو کر

پہلی باتیں ہیں نہ پہلے کی ملاقاتیں ہیں

اب دنوں میں وہ رہا لطف نہ راتوں میں رہا

کہنے والے وہ سننے والا میں

ایک بھی آج دوسرا نہ ہوا

پہنچائے گا نہیں تو ٹھکانے لگائے گا

اب اس گلی میں غیر کو رہبر بنائیں گے

ملے مراد ہماری مگر ملے بھی کہیں

خدا کرے مگر ایسا خدا نہیں کرتا

نظر آتا نہیں اب گھر میں وہ بھی اف رے تنہائی

اک آئینہ میں پہلے آدمی تھا میری صورت کا

رہتی ہے شمس و قمر کو ترے سائے کی تلاش

روشنی ڈھونڈھتی پھرتی ہے اندھیرا تیرا

مجنوں سے جو نفرت ہے دیوانی ہے تو لیلیٰ

وہ خاک اڑاتا ہے لیکن نہیں دل میلا

ہنگامۂ حیات سے لینا تو کچھ نہیں

ہاں دیکھتے چلو کہ تماشا ہے راہ کا

رسم طلب میں کیا ہے سمجھ کر اٹھا قدم

آ تجھ کو ہم بتائیں کہ کیا مانگ کیا نہ مانگ

ہاں یہ تو بتا اے دل محروم تمنا

اب بھی کوئی ہوتا ہے کہ ارماں نہیں ہوتا

وہاں سے لے گئی ناکام بدبختوں کو خودکامی

جہاں چشم کرم سے خودبخود کچھ کام ہونا تھا

اب گردش دوراں کو لے آتے ہیں قابو میں

ہم دور چلاتے ہیں ساقی سے کہو مے لا

دوسرا ایسا کہاں اے دشت خلوت کا مقام

اپنی ویرانی کو لے کر میرے ویرانے میں آ

Recitation

بولیے