Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Saghar Siddiqui's Photo'

ساغر صدیقی

1928 - 1974 | لاہور, پاکستان

ساغر صدیقی کے اشعار

19.3K
Favorite

باعتبار

یہ زلف بردوش کون آیا یہ کس کی آہٹ سے گل کھلے ہیں

مہک رہی ہے فضائے ہستی تمام عالم بہار سا ہے

غم کے مجرم خوشی کے مجرم ہیں

لوگ اب زندگی کے مجرم ہیں

میں آدمی ہوں کوئی فرشتہ نہیں حضور

میں آج اپنی ذات سے گھبرا کے پی گیا

موت کہتے ہیں جس کو اے ساغرؔ

زندگی کی کوئی کڑی ہوگی

کانٹے تو خیر کانٹے ہیں اس کا گلہ ہی کیا

پھولوں کی واردات سے گھبرا کے پی گیا

جب جام دیا تھا ساقی نے جب دور چلا تھا محفل میں

اک ہوش کی ساعت کیا کہیے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے

آج پھر بجھ گئے جل جل کے امیدوں کے چراغ

آج پھر تاروں بھری رات نے دم توڑ دیا

جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی

اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے

دنیائے حادثات ہے اک دردناک گیت

دنیائے حادثات سے گھبرا کے پی گیا

بے ساختہ بکھر گئی جلووں کی کائنات

آئینہ ٹوٹ کر تری انگڑائی بن گیا

تم گئے رونق بہار گئی

تم نہ جاؤ بہار کے دن ہیں

کل جنہیں چھو نہیں سکتی تھی فرشتوں کی نظر

آج وہ رونق بازار نظر آتے ہیں

رنگ اڑنے لگا ہے پھولوں کا

اب تو آ جاؤ! وقت نازک ہے

زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے

جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں

حشر میں کون گواہی مری دے گا ساغرؔ

سب تمہارے ہی طرفدار نظر آتے ہیں

ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں

ورنہ ان تاروں بھری راتوں میں کیا ہوتا نہیں

اب نہ آئیں گے روٹھنے والے

دیدۂ اشک بار چپ ہو جا

میں تلخی حیات سے گھبرا کے پی گیا

غم کی سیاہ رات سے گھبرا کے پی گیا

بھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجئے

تم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجئے

چھلکے ہوئے تھے جام پریشاں تھی زلف یار

کچھ ایسے حادثات سے گھبرا کے پی گیا

جن سے افسانۂ ہستی میں تسلسل تھا کبھی

ان محبت کی روایات نے دم توڑ دیا

اب شہر آرزو میں وہ رعنائیاں کہاں

ہیں گل کدے نڈھال بڑی تیز دھوپ ہے

تقدیر کے چہرہ کی شکن دیکھ رہا ہوں

آئینۂ حالات ہے دنیا تیری کیا ہے

اب کہاں ایسی طبیعت والے

چوٹ کھا کر جو دعا کرتے تھے

یہ کناروں سے کھیلنے والے

ڈوب جائیں تو کیا تماشا ہو

اے دل بے قرار چپ ہو جا

جا چکی ہے بہار چپ ہو جا

حوروں کی طلب اور مے و ساغر سے ہے نفرت

زاہد ترے عرفان سے کچھ بھول ہوئی ہے

زلف برہم کی جب سے شناسا ہوئی

زندگی کا چلن مجرمانہ ہوا

میں نے جن کے لیے راہوں میں بچھایا تھا لہو

ہم سے کہتے ہیں وہی عہد وفا یاد نہیں

ایک نغمہ اک تارا ایک غنچہ ایک جام

اے غم دوراں غم دوراں تجھے میرا سلام

مسکراؤ بہار کے دن ہیں

گل کھلاؤ بہار کے دن ہیں

تیری صورت جو اتفاق سے ہم

بھول جائیں تو کیا تماشا ہو

ہم بنائیں گے یہاں ساغرؔ نئی تصویر شوق

ہم تخیل کے مجدد ہم تصور کے امام

جن سے زندہ ہو یقین و آگہی کی آبرو

عشق کی راہوں میں کچھ ایسے گماں کرتے چلو

نغموں کی ابتدا تھی کبھی میرے نام سے

اشکوں کی انتہا ہوں مجھے یاد کیجئے

ہے دعا یاد مگر حرف دعا یاد نہیں

میرے نغمات کو انداز نوا یاد نہیں

جو چمن کی حیات کو ڈس لے

اس کلی کو ببول کہتا ہوں

لوگ کہتے ہیں رات بیت چکی

مجھ کو سمجھاؤ! میں شرابی ہوں

خاک اڑتی ہے تیری گلیوں میں

زندگی کا وقار دیکھا ہے

اب اپنی حقیقت بھی ساغرؔ بے ربط کہانی لگتی ہے

دنیا کی حقیقت کیا کہیے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے

مر گئے جن کے چاہنے والے

ان حسینوں کی زندگی کیا ہے

جھلملاتے ہوئے اشکوں کی لڑی ٹوٹ گئی

جگمگاتی ہوئی برسات نے دم توڑ دیا

چراغ طور جلاؤ بڑا اندھیرا ہے

ذرا نقاب اٹھاؤ بڑا اندھیرا ہے

اے عدم کے مسافرو ہشیار

راہ میں زندگی کھڑی ہوگی

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے