سالم سلیم کے اشعار
اپنے جیسی کوئی تصویر بنانی تھی مجھے
مرے اندر سے سبھی رنگ تمہارے نکلے
بھرے بازار میں بیٹھا ہوں لیے جنس وجود
شرط یہ ہے کہ مری خاک کی قیمت دی جائے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
چٹخ کے ٹوٹ گئی ہے تو بن گئی آواز
جو میرے سینہ میں اک روز خامشی ہوئی تھی
میں گھٹتا جا رہا ہوں اپنے اندر
تمہیں اتنا زیادہ کر لیا ہے
-
موضوع : لَو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اک برف سی جمی رہے دیوار و بام پر
اک آگ میرے کمرے کے اندر لگی رہے
یہ کیسی آگ ہے مجھ میں کہ ایک مدت سے
تماشہ دیکھ رہا ہوں میں اپنے جلنے کا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
وہ دور تھا تو بہت حسرتیں تھیں پانے کی
وہ مل گیا ہے تو جی چاہتا ہے کھونے کو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
زندگی نے جو کہیں کا نہیں رکھا مجھ کو
اب مجھے ضد ہے کہ برباد کیا جائے اسے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کتنا مشکل ہو گیا ہوں ہجر میں اس کے سو وہ
میرے پاس آئے گا اور آسان کر دے گا مجھے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
تمہاری آگ میں خود کو جلایا تھا جو اک شب
ابھی تک میرے کمرے میں دھواں پھیلا ہوا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ترس رہی تھیں یہ آنکھیں کسی کی صورت کو
سو ہم بھی دشت میں آب رواں اٹھا لائے
آ رہا ہوگا وہ دامن سے ہوا باندھے ہوئے
آج خوشبو کو پریشان کیا جائے گا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کیسا ہنگامہ بپا ہے کہ مرے شہر کے لوگ
خامشی ڈھونڈھنے غاروں کی طرف جاتے ہوئے
راس آتی نہیں اب میرے لہو کو کوئی خاک
ایسا اس جسم کا پابند سلاسل ہوا میں
-
موضوع : جسم
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
میری مٹی میں کوئی آگ سی لگ جاتی ہے
جو بھڑکتی ہے ترے چھڑکے ہوئے پانی سے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہجر کے دن تو ہوئے ختم بڑی دھوم کے ساتھ
وصل کی رات ہے کیوں مرثیہ خوانی کریں ہم
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کیا ہو گیا کہ بیٹھ گئی خاک بھی مری
کیا بات ہے کہ اپنے ہی اوپر کھڑا ہوں میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
تمام بچھڑے ہوؤں کو ملاؤ آج کی رات
تمام کھوئے ہوؤں کو اشارا کر کے لاؤ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اب اس کے بعد کچھ بھی نہیں اختیار میں
وہ جبر تھا کہ خود کو خدا کر چکے ہیں ہم
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
میں آپ اپنے اندھیروں میں بیٹھ جاتا ہوں
پھر اس کے بعد کوئی شے چمکتی رہتی ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
چراغ عشق بدن سے لگا تھا کچھ ایسا
میں بجھ کے رہ گیا اس کو ہوا بنانے میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کہکشائیں مری مٹی کی طرف آتی ہوئیں
مرے ذرات ستاروں کی طرف جاتے ہوئے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
نہ جانے کیسی گرانی اٹھائے پھرتا ہوں
نہ جانے کیا مرے کاندھے پہ سر سا رہتا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ٹوٹتے برتن کا شور اور گونگی بہری خامشی
ہم نے رکھ لی ہے بچا کر ایک گہری خامشی
بجھا رکھے ہیں یہ کس نے سبھی چراغ ہوس
ذرا سا جھانک کے دیکھیں کہیں ہوا ہی نہ ہو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جز ہمارے کون آخر دیکھتا اس کام کو
روح کے اندر کوئی کار بدن ہوتا ہوا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
تھکے ہوئے سے بدن کو لٹا کے بستر پر
ہم اپنے آپ سے لڑتے ہیں نیند آنے تک
جو ایک دم میں تمام روحوں کو خاک کر دے
بدن سے اڑتا ہوا اک ایسا شرار دیکھوں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
سمیٹنے میں لگے ہیں ہم اپنی سانسوں کو
یہ جانتے ہیں کہ اک دن بکھیر دے گا کوئی
سو گیا وقت کی دہلیز پہ سر رکھے ہوئے
میں کہاں تک سفر عشق میں تنہا جاتا
شاید کچھ مجبوری بڑھتی جاتی ہے
تجھ سے میری دوری بڑھتی جاتی ہے
دیکھنا تعبیر میں ہر صبح کو صحرا کی پیاس
رات کو پھر اپنے خوابوں میں سمندر دیکھنا
سنا ہے چاند کو الجھا لیا ہے شاخوں نے
سو اب چراغ دریچوں پہ رکھ دیے جائیں
یہ آنکھیں سوکھی پڑی ہیں لہو سے نم کر لوں
جو تم کہو تو ذرا سا تمہارا غم کر لوں
کتنے بے کار خداؤں کی عبادت کی ہے
آخری بار کسی بت سے شکایت کی ہے
میں زخم در بدری کھا کے لوٹ آؤں جب
مرے جلے ہوئے سینے پہ ہات رکھ دینا
اور کب تک زندگی کی ناز برداری کریں
دوستو آؤ چلو مرنے کی تیاری کریں
یہ جسم اترا ہوا ہے میرا کہ روح سے خود کو ڈھانپنا ہے
کوئی نہ آئے ذرا یہاں پر ابھی میں کپڑے بدل رہا ہوں
طے کر لیا ہے میں نے سرابوں بھرا سفر
اے دشت اب مجھے مرا انعام چاہیے
کسی اور در کے نشان میری جبیں پہ ہیں
تو بہت دنوں سے مرا خدا نہیں ہو رہا
بس ایک چیخ سی ابھرے گی خانۂ دل سے
پھر اس کے بعد مری خامشی سنے گا کوئی
میں آسمان و زمیں کے جھگڑے میں یوں ہی بے وجہ پڑ گیا تھا
کوئی بلاتا ہے پاس اپنے کسی کے ہم راہ چل رہا ہوں
خود اپنے آپ کو ویسے بھی ڈھونڈھنا ہوگا
صدائیں دے کے مجھے یوں بھی چھپ رہے گا کوئی
اس دل میں چبھا رہتا تھا کانٹے کی طرح وہ
اک روز اسے میں نے محبت سے نکالا
مجھی سے ہوئے یہ رستے تمام جاتے ہیں اس کے در تک
میں آ رہا ہوں اسی کے در پر کہ اپنے اندر نکل رہا ہوں
کتنی آنکھیں در و دیوار سے چپکی ہوئی ہیں
راستہ بھولے ہوئے شخص کبھی گھر بھی تو آ