شوکت پردیسی کے اشعار
ان کی نگاہ ناز کی گردش کے ساتھ ساتھ
محسوس یہ ہوا کہ زمانہ بدل گیا
اے انقلاب نو تری رفتار دیکھ کر
خود ہم بھی سوچتے ہیں کہ اب تک کہاں رہے
شریک درد نہیں جب کوئی تو اے شوکتؔ
خود اپنی ذات کی بے چارگی غنیمت ہے
اپنے پرائے تھک گئے کہہ کر ہر کوشش بیکار رہی
وقت کی بات سمجھ میں آئی وقت ہی کے سمجھانے سے
حسن اخلاص ہی نہیں ورنہ
آدمی آدمی تو آج بھی ہے
قریب سے اسے دیکھو تو وہ بھی تنہا ہے
جو دور سے نظر آتا ہے انجمن یارو
نگاہ کو بھی میسر ہے دل کی گہرائی
یہ ترجمان محبت ہے بے زباں نہ کہو
اگر تم مل بھی جاتے تو نہ ہوتا ختم افسانہ
پھر اس کے بعد دل میں کیا خبر کیا آرزو ہوتی
وہ آنکھیں جو اب اجنبی ہو گئی ہیں
بہت دور تک ان میں پایا گیا ہوں
زندگی سے کوئی مانوس تو ہو لے پہلے
زندگی خود ہی سکھا دے گی اسے کام کی بات
کیا بڑھے گا وہ تصور کی حدوں سے آگے
صبح کو دیکھ کے یاد آئے جسے شام کی بات
ادھورا ہو کے ہوں کتنا مکمل
بہ مشکل زندگی بکھرا ہوا ہوں
ہوائیں روک نہ پائیں بھنور ڈبو نہ سکے
وہ ایک ناؤ جو عزم سفر کے بعد چلی
اس فیصلے پہ لٹ گئی دنیائے اعتبار
ثابت ہوا گناہ گنہ گار کے بغیر
ہنستے ہنستے بہے ہیں آنسو بھی
روتے روتے ہنستی بھی آئی ہمیں
جب مصلحت وقت سے گردن کو جھکا کر
وہ بات کرے ہے تو کوئی تیر لگے ہے
دیتا رہا فریب مسلسل کوئی مگر
امکان التفات سے ہم کھیلتے رہے
نا شناسان محبت کا گلہ کیا کہ یہاں
اجنبی وہ ہیں کہ تھی جن سے شناسائی بھی
موج طوفاں سے نکل کر بھی سلامت نہ رہے
نذر ساحل ہوئے دریا کے شناور کتنے
عہد آغاز تمنا بھی مجھے یاد نہیں
محو حیرت ہوں کہ اتنا بھی مجھے یاد نہیں
خود وہ کرتے ہیں جسے عہد وفا سے تعبیر
سچ تو یہ ہے کہ وہ دھوکا بھی مجھے یاد نہیں
شوکتؔ وہ آج آپ کو پہچان تو گئے
اپنی نگاہ میں جو کبھی آسماں رہے
یہ کیسی بے قراری سننے والوں کے دلوں میں ہے
ورق دہرا رہا ہے کیا کوئی میری کہانی کا
حدود جسم سے آگے بڑھے تو یہ دیکھا
کہ تشنگی تھی برہنہ تری اداؤں تک
ہائے اس منت کش وہم و گماں کی جستجو
زندگی جس کو نہ پاے جو نہ پاے زندگی
رات اک نادار کا گھر جل گیا تھا اور بس
لوگ تو بے وجہ سناٹے سے گھبرانے لگے
پھونک کر سارا چمن جب وہ شریک غم ہوئے
ان کو اس عالم میں بھی غم آشنا کہنا پڑا
برق کی شعلہ مزاجی ہے مسلم لیکن
میں نے دیکھا مرے سائے سے یہ کتراتی ہے
جی میں آتا ہے کہ شوکتؔ کسی چنگاری کو
کر دوں پھر شعلہ بداماں کہ کوئی بات چلے