کہانی کی کہانی
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس کی تربیت مغربی تہذیب میں ہوئی ہے۔ اس نے مغربی ادب کا مطالعہ کیا ہے اور وہاں کے سماج میں پوری طرح رچ بس گیا ہے۔ اپنے ملک لوٹنے پر والدین اس کی شادی کے لیے کہتے ہیں مگر وہ بغیر ملے، دیکھے کسی ایسی لڑکی سے شادی کے لیے راضی نہیں ہوتا جسے وہ جانتا تک نہیں۔ گھر والوں کے اصرار پر وہ شادی کے لیے راضی ہو جاتا ہے۔ شادی ہونے کے بعد وہ ایک اجنبی لڑکی جو اب اس کی بیوی ہے کے پاس جانے سے کتراتا ہے۔ ایک رات تنہا لیٹے ہوئے اسے کسی ناول کے کچھ حصے یاد آتے ہیں اور وہ اپنی بیوی کی چاہت میں تڑپ اٹھتا ہے اور اس کے پاس چلا جاتا ہے۔
(۱)
میاں اکبر کا نکاح ہو گیا۔ دلہن کو بیاہ کر لے آئے۔ شادی میں کچھ کروفر نہ تھا۔ بہت سادی، زمانہ جدید کی شادی تھی۔ بہت ہی کم اور چیدہ براتی تھے۔ جب شہدوں کو اللہ آمین کی اجازت نہ ملی تو انہوں نے بہت غل مچایا۔ بہت سے لوگوں نے اس دائمی رسم کو ٹوٹتا دیکھ کر ناک بھوں چڑھائی اور افسوس کا اظہار کیا اور غصہ سے ’’جدیدیت‘‘ کو آپس میں برا بھلا کہا۔
میاں اکبر نے سہرا باندھنے سے پہلے ہی انکار کر دیا تھا۔ اس پر کچھ ’’بڈھی روحوں‘‘ نے خوب انگلیاں اٹھائیں۔ لیکن میاں اکبر کی ضد تھی کہ وہ نہ تو سہرا باندھیں گے نہ بھڑکیلے کپڑے پہنیں گے اور نہ ان پرانی رسموں، مثلاً گاجا باجا ،گھوڑے پر چڑھنا، شہدے وغیرہ وغیرہ، کو ہونے دیں گے جو ہمیں ہمارے آبا و اجداد سے ورثہ میں ملی ہیں۔ ورنہ شادی ہی نہ کریں گے۔ لوگوں کے اعتراض کرنے سے ہوتا ہی کیا ہے؟ شادی تو میاں اکبر کی تھی، نہ کہ ان دقیانوسی لکیر کے فقیروں کی جو اچھائی میں بھی برائی نکالے بغیر باز نہیں آتے اور پھر ان کے سسرے بھی ان کی شرائط کو پورا کرنے پر تیار تھے۔ تو پھر بقول شخصے جب میاں بیوی راضی تو کیا کرےگا قاضی۔
بڈھوں کے غصہ کو سوچ سوچ کر میاں اکبر دل ہی دل میں بہت خوش ہو رہے تھے، ’’بڑا شور مچاتے تھے نوجوانوں کو بہت گھونٹ گھونٹ کر رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ میں نے دکھا دیا ناکہ کس طرح نوجوان بھی اپنی خواہشات پوری کر لیتے ہیں۔ بڑے آئے کہیں کے بڑے بوڑھے۔‘‘ اور ان کو کبھی بچپن کی سنی سنائی کہاوت یاد آ گئی اور دل ہی دل میں خوب ہنستے۔ ’’بڑے بوڑھے! سردارجی کے سالے، امیر جی کے بھیا اور پردہ میں سے منہ نکال کے بولی ان کی میا۔۔۔ تا تھنک تھنک تھنک تا تھیا تھیا تھیا۔ شادی میری ہوگی، ان کو کیا کہ کس طرح؟ جس طرح میں چاہوں گا ہوگی اور پھر گویا جب میں اور میرے سسرے راضی تو کیا کرےگا قاضی۔‘‘
اس میں شک نہیں کہ ان کو اس بات کا قطعی علم نہ تھا کہ ان کی بیوی بھی راضی ہیں یا نہیں یا ان کی مرضی کیا ہے۔۔۔ شادی ٹھیرنے سے قبل بھی بڑے بڑے جھگڑے نکلے تھے۔ ولایت سے لوٹنے کے تین سال بعد تک تو میاں اکبر طے شدہ شادی کرنے پر تیار ہی نہ ہوتے تھے۔ یہ تو کیا اس کے ذکر ہی سے کانوں میں انگلیاں دے لیتے۔ آخر تو اس خطہ سے چلے آ رہے تھے جہاں مرد اور عورتیں آزادی سے ملتے ہیں۔ ہاتھ میں ہاتھ ڈالے جہاں جی میں آتا ہے پھرتے ہیں، شادی خود لب پر ایک بوسہ دے کر اور انگلی میں ایک انگوٹھی پنہا کر مزے اورمحبت سے طے کرتے ہیں۔ صرف جب معاملہ طے ہو جاتا ہے تو اپنے اپنے والدین کو خوشخبری سنا دیتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ یہ نہایت ہی عمدہ اور مناسب بات ہے کیونکہ آخرکار لڑکے اور لڑکی ہی کو تو زندگی ساتھ گزارنی ہوتی ہے اور اگر اپنی پسند اور مرضی کا جوڑا نہ ہوا تو زندگی دوبھر ہو جاتی ہے۔
اور پھر والدین اور اولاد کے خیالات میں کتنا فرق ہوتا ہے؟ اتنا ہی جتنا کہ ماضی اور حال میں، موجودہ نسل اور متقدمین میں، ایک میل اور دو میل کے فاصلہ میں۔ لیکن جس وقت اکبر نے ہندوستان کے کنارے پر قدم رکھا تو دنیا ہی بدلی ہوئی پائی۔ جیسے جیسے بمبئی سے دور ہوتے گیے،ہاتھ میں ہاتھ ڈالے پھرنا تو درکنار عورتوں کی شکل دکھائی دینی بھی مشکل ہو گئی۔ کوئی ایسی عورت جس سے دل کی بات کہہ سکیں جو ان سےاور ان کے خیالات سے ہمدردی ظاہر کرسکے۔ دوا کے لیے بھی مشکل سے ملتی۔ اب جوں جوں دن گزرتے گیے، ان پر ایک غیرمعمولی اور عجیب قسم کی افسردگی اور پژمردگی چھانے لگی۔ ان کے دل پر ایک اندھیرا سا آ گیا اور ایک لامتناہی افسوس کی کیفیت ان پر طاری ہو گئی۔ جس طرف نگاہ دوڑاتے ،میاں اکبر کو سوائے ایک بنجر اور ویران بغیر عورت کے ریگستان کے کچھ نہ دکھائی دیتا جس کے افق کی تکلیف دہ اور دل شکن ہمواری کو توڑنے کے لیے ایک سرسبز درخت یا چٹان بھی نہ تھی۔ لوگوں سے ملتے لیکن ان میں سوائے کٹرپن گندی رسومات اور توہمات کے کچھ بھی نہ ملتا۔ سوائے ’’جدیدیت‘‘ کی برائی اور ’’قدامت‘‘ کی تعریف کے کوئی خوشگوار آواز نہ سنائی دیتی۔
جب باہر کچھ نہ ملا تو لاچار اکبر کو اپنے ہی اندر بھروسے اور تسلی کی تلاش کرنی پڑی۔ انہوں نے اپنے دل کے اندر دیکھا۔ لیکن وہاں ایک آگ سی سلگ رہی تھی جس کے دھویں نے ان کے تمام اندرونی اعضا کو دھندلا اور کالا کر دیا تھا۔ وہاں بھی کوئی تسلی کی صورت نہ دکھائی دیتی تھی، صرف ایک یاد کا دریا تھا کہ امڈا آتا تھا۔ لیکن اندرونی آگ یاد کے پانی سے اور بھڑک اٹھتی تھی۔ ان کے دماغ میں انقلابی خیالات موجزن تھے، ان کے دل میں ہوٹلوں کی راتوں اور نوجوان عورتوں کے ہونٹوں کی یاد کے علاوہ اور کچھ نہ تھا۔ میاں اکبر کی یہ کیفیت ہوئی کہ دیوانہ پن کے لگ بھگ آلگے اور موت کا خیال ان پر ایک کالے بھوت کی طرح سوار ہو گیا۔
انہوں نے اپنے ڈی۔ ایچ۔ لارینس کے ناولوں کا مطالعہ دوبارہ اور سہ بارہ کیا لیکن لارینس نے اکبر کی لگی ہوئی آگ پر اور تیل ڈال دیا اور ان کا دماغ اپنے ہاں کی عورتوں کی افسوسناک حالت پر اور ملک کے لوگوں کی دماغی، معاشرتی اور جنسی کیفیت پر غصہ اور افسوس سے کھولنے لگا۔ ان کو ایک انگریزی جرنلسٹ کے وہ الفاظ جو اس نے اپنے اسپین کے سفر کے بعد اپنے اخبار میں لکھے تھے، یاد آئے۔ وہاں کی عورتوں کی بری اور افسوسناک حالت دیکھتے ہوئے اس نے لکھا تھا کہ کوئی ملک اس وقت تک آزاد نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس میں سے فوقیت جنسی کا امتیاز نہ اٹھ جائے۔ جب تک کہ اس کی عورتیں پوری طرح آزاد نہ ہولیں، جب تک کہ اس کے نوجوان مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے شہروں کی سڑکوں اور باغوں کی روشوں پر آزادانہ نہ پھرنے لگیں۔ تہذیب کی نشانی، اس نے لکھا تھا، دونوں جنسوں میں برابری باہمی اتفاق اور آزادی ہے۔
ان خیالات میں پانچ سال پرورش پانے اور دنیا دیکھنے کے بعد ناممکن تھا کہ کسی ہونہار اور سوچنے والے شخص پر گہرا اثر نہ ہو اور ناامیدی اور افسردگی ایک تلاطم برپا نہ کر دے۔ لیکن ہندوستان کی اس وقت بہت ابتر حالت تھی۔چاروں طرف غلامی اور تاریکی کا دور دورہ تھا، اس کی ناول نگاری انگلستان کی سترھویں صدی سے بدتر، اس کی نثر انگلستان کی پندرھویں صدی کی طرح، اس کی تنقید ویسی جیسی انگلستان میں اب سے سو برس سے زائد پیشتر ’’بلیک وڈ میگزین‘‘ اور ’’کوارٹر لی ریویو‘‘ کے ہاتھوں میں تھی، اس کی شاعری آسکر وایلڈ کے زمانہ کی سی، اس کی جنسی حالت انگلستان میں پچھلی صدی سے بھی بدتر تھی۔ چنانچہ اکبر کی حالت ویسی ہی ہو گئی۔ جیسے کہ ایک اس شحص کی ہوگی جو کسی طرح اس وقت سے سو اور دو سو برس پہلے کے زمانہ میں یکایک لے جاکر ڈال دیا جائے۔ ولایت سے ہندوستان آنے میں اتنا ہی فرق ہو گیا جتناکہ گزرے ہوئے ماضی میں پھینک دیے جانے سے۔
اکبر کو اپنے موجودہ ماحول سے مانوس ہونے میں عرصہ لگا اور ان کے خیالات بدلنےمیں تواور بھی وقت درکار تھا۔ گویہ مشکل ہے کہ انسان کے خیالات پختہ ہو جانے کے بعد بدل جائیں۔ صرف ان کا زور کم ہو جاتا ہے اور اکبر کے خیالات بھی ایک پہاڑی دریا کے چڑھاؤ کی طرح کچھ عرصہ کے بعد اپنا زور کم کرتے گیے۔ لیکن ان کی روانی باقی تھی۔ جس کا بالکل بند کر دینا ناممکن ہے۔جب میاں اکبر کو نوکری بھی مل گئی تو ان کے اعزہ نے ان سے شادی کرنے پر زور ڈالنا شروع کیا۔ تین سال تک تو انہوں نے ہنسی میں ٹال دیا۔ جب لوگ ان سے کہتے کہ شادی کر لو تو وہ یہی جواب دیتے کہ کس سے کروں۔
’’میاں لڑکیاں خدا کی دی بہت سی ہیں۔‘‘ لیکن ان کا جواب ہوتا کہ میں ان کو کیا جانوں۔۔۔؟ لیکن بھوک کی مار بری ہوتی ہے۔ آخر چاروناچار راضی ہو ہی گیے۔
(۲)
گورسی جل چکی تھی لیکن ابھی تک بل باقی تھا۔ انسان اپنے خیالات کو گھونٹ سکتا ہے لیکن ان کو بالکل مسمار نہیں کر سکتا اور حالانکہ اکبر کی مجبوریوں نے اس کو مجبور کر دیا تھا کہ ملک کی حالت سے صلح کر لے لیکن رسی کے بل کی طرح اس کے خیالات باقی تھے۔
دلہن ان کے گھر میں آ گئی۔ پالکی میں سے نہ جانے کس نے اتارا، اکبر نے تو انکار کر دیا تھا۔ ’’آخر اس کے بھی تو پیر ہیں۔ اپنے پاؤں سے کیوں نہ چلے؟‘‘ آرسی مصحف وغیرہ بھی نہ ہوا۔ اب رات گیے دلہن کو اس کے کمرے میں پہنچا کر لوگ تھکے ہارے کونوں کھدروں میں گٹھریاں بن کر سو گیے۔ دلہن کے ساتھ کی ماما دالان کے ایک کونے میں دیر تک دولہا کے آنے کا انتظار کرتی رہی۔ گھنٹوں کے انتظار کے بعد بھی جب دولہا کسی طرح نہ آئے تو بیچاری کڑیاں گنتے گنتے سو گئی۔
دلہن کو جس طرح چھپر کھٹ پر ڈال دیا تھا، بےچاری اسی طرح گنڈلی منڈلی مارے پڑی تھی۔ اکیلے کمرے میں وہ اور بھی سہمی جا رہی تھی۔ ایک تو تنہائی دوسرے زندگی کے زینہ کے موڑ پر اگلی سیڑھیوں کا خیال اور اس پر اس کانٹے اور توڑ کےوقت کی جستجو۔ ایک عجیب خوف اس کے دل کو مسوس رہا تھا۔ اس شش و پنج میں بہت دیر ہو گئی۔ ایک ایک لمحہ پہاڑ کی طرح کاٹے نہ کٹتا تھا۔ وہ حیران تھی کہ آخر دولہا میاں کیوں نہیں آتے۔ ’’کیا میری شادی اس کمرے سے ہوئی ہے؟‘‘ لیکن بہت دیر تک ہولنے اور پریشان ہونے کے بعد اس نے سوچا کہ شاید شادی میں یہی ہوتا ہوگا۔ جب گھنٹے نے ٹن ٹن ٹن کہیں دور سے تین بجائے تو اس کی مایوسی کا کچھ ٹھکانا نہ تھا۔ ’’ہائے، میری قسمت پھوٹ گئی۔ کوئی بھی موا دولہا نہیں آتا۔ لیکن شاید ایسا ہی ہوتا ہوگا۔‘‘
نکاح کے بعد ہی اکبر کے بے تکلف اور ’’تجربہ کار‘‘ چچازاد بھائیوں نے اس کو گھیر لیا اور نصیحت اور صلاح کاری میں مشغول ہو گیے۔ شادی کی اونچ نیچ بتائی اور طریقہ طرائق سمجھانے لگے۔ لیکن اکبر نے کہا ’’گو میں اس طرح شادی کرنے پر آمادہ تو ہو گیا ہوں۔ لیکن کبھی بھی شب عروسی کے کمرے میں جس پر ہرزن و بچہ کی نگاہ گڑی رہتی ہے بیوی کے ساتھ رات نہ گزاروں گا۔‘‘
’’تو کیا ’ہنی مون‘ منانے جاؤگے؟‘‘ بھئی پاگل تو نہیں ہو گئے ہو؟ ایسی بیوقوفی بھی نہ کرنا۔ اس بیچاری کا کیا حال ہوگا؟ وہ کیا خیال کرےگی، جو لوگ ایسی حماقت کرتے ہیں ہمیشہ پچتاتے ہیں۔ بلو نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔ کئی روز تک بیوی سے صرف ’’دوستی‘‘ ہی کرتے رہے۔ دیکھ لو نتیجہ کیا ہوا؟ آخر کو طلاق ہی ہوا۔ لیکن اکبر نے کہا، ’’اس طرح بیوی کے پاس جانا تو بالکل ایک طوائف کے پاس جانے کی طرح ہے۔ یہ سب باتیں دونوں کی مرضی سے ہونی چاہئیں۔‘‘ بھئی ان باتوں کو چھوڑو۔ یہ سب باتیں ہی باتیں ہیں۔ عمل اور خیال میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ یہ ولایتی خیالات کام نہیں آتے۔ مگر اکبر ہٹ کے دھنی ان باتوں کو ماننے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ انہوں نے ہیولوک ایلس اور اور ماہرین نفسیات کے حوالے دینے شروع کیے۔ ’’اکثر عورتوں کو ایسے ہی طریقے اختیار کرنے سے سیکس سے قطعی نفرت ہو جاتی ہے اور وہ آئندہ مرد کی صورت سے نفرت کرنے لگتی ہیں۔‘‘
اس قسم کے مباحثوں میں رات کے دو بج گیے اور اکبر کے بھائی ان کو زبردستی پکڑ کر گھر کے دروازہ تک چھوڑ گیے اور تاکید کر گیے کہ پانڈے جی پچھتائیں گے اور پھر چنے کی کھائیں گے۔۔۔ گھر میں گھس کر اکبر دبے پاؤں اپنے کمرے کی طرف چلے۔ اس وقت سارے میں سناٹا ہو گیا تھا۔ دن بھر کے تھکے ہوئے سب پڑکر سو گیے تھے۔ ان کے کمرے میں کچھ مہمان خراٹے لے رہے تھے۔ اکبر نے اس کو غنیمت جانا اور ایک پڑی ہوئی رضائی کو کھینچ ایک کونے میں زمین پر دراز ہو گیے۔
انہوں نے سونے کے خیال سے آنکھیں بند کر لیں۔ ان کے دماغ میں ایک لڑکی کی تصویر پھر گئی۔ اس کا قد موزوں تھا، اس کا جسم سڈول اور خوبصورت، اس کے کولہے ابھرے ہوئے تھے،اس کی چال بہکتی ہوئی تھی، اس کے خیال میں ایک مستی تھی۔ سال بھر ہوا اکبر نے اس لڑکی کو دیکھا تھا۔ آج یہ لڑکی اکبر کی دلہن تھی۔۔۔ اکبر نے اور زور سے بھینچ کے آنکھیں بند کر لیں، لیکن وہ تصویر ایک مست خواب کی طرح ان کے سامنے تھی۔ انہوں نے آنکھیں کھول لیں اور خیال میں محو ہو گیے۔ لیکن ہر پھر کر پھر خیالات اسی لڑکی کی طرف رجوع ہوئے اور ان کے دل میں امنگ اور اس لڑکی سے ملاقات کرنے کی خواہش پیدا ہوئی۔۔۔ اکبر نے کروٹ بدل کر پھر آنکھیں بند کر لیں اور لڑکی کے خیال کو دور کرنے کے لیے ادھر ادھر کی باتوں کا خیال باندھا۔
ان کو ایک کتاب کا، جو انہوں نے پڑھ کر بڑی حد تک پسند کی تھی، خیال آ گیا۔ ’’ہماری سوسائٹی کس قدر توہمات اور فضولیات سے بھری ہوئی ہے۔ رسوم نے تہ و بالا کر رکھا ہے۔ جو لوگ ہیں سب نکھٹو اور نکمے، اس شخص کی طرح جس کی نگاہ ہر وقت صرف اکبر کی ٹوپی اور اچکن ہی پر پڑتی تھی۔ آئے، گل و بلبل کے افسانے گائے، سگرٹ نوش فرمایا اور لمبے بنے۔ آئیے اکبر صاحب۔۔۔ میرا نام بھی تو اکبر ہے! عجیب بات ہے۔ مجھے اس کا پہلے خیال نہیں آیا۔ کوئی ٹھمری، کوئی دادرا۔ واہ بی منی جان، واہ۔ نخرے اور گرم مصالحہ۔ یہ بھی کیا کسی نے بات کہی ہے۔ نخرے (اوپر نیچے اڑتے ہوئے روئی کے گالے) اور گرم مصالحہ۔ لونگ اور کالی مرچ، سیاہی، سفیدی میں سیاہی، دوات کی،مٹی کی دوات، سرکنڈے کا قلم اور تختی۔ تختی پہ تختی مولوی صاحب کی آئی کم بختی۔ مولوی صاحب اور حوروں کا خواب۔ گورا جسم، لمبی لمبی ٹانگیں، بیباکی، نزاکت حسن، حسن۔۔۔‘‘ اور پھر وہی سڈول جسم اور ابھرے ہوئے کولہے۔۔۔
اکبر کے جذبات آگ کی طرح بھڑکتے جاتے تھے۔ وہ گھبراکر اٹھ بیٹھا اور پھر ادھر ادھر دیکھ کر لیٹ گیا۔ اب اس نے اپنے گھر کا خیال باندھ لیا۔ ’’صوفے کو اور دیوار کی طرف لگاؤں گا اور اس کے اوپر کیوپڈ اور سائیکی تصویر ٹانگوں گا۔ کونوں کی میزوں پر سنگ مرمر کی مورتیں، وہ پھولوں والی تصویر الٹے ہاتھ کی دیوار پر ہونی چاہیے اور بیکس کی صوفے کی سامنے والی دیوار پر۔ لیکن یہ سب تو حمیدہ کی رائے سے ہوگا۔ نہیں۔ یہ تو میں اسی پر چھوڑ دوں گا۔ شام کو میں چپکے سے آؤں گا۔ وہ تصویروں کو ٹھیک کرتی ہوگی۔ میں پیچھے سے اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لوں گا۔ کون؟ اکبر، میرے اکبر! میں اس کو پیار کروں گا۔ ہم دونوں صوفے پر ایک دوسرے کے گلے میں ہاتھ ڈال کر بیٹھ جائیں گے۔ وہ مجھ کو چائے بنا کر دےگی، میں اس کی انگلیوں کو پیار کروں گا۔۔۔‘‘
اکبر کے جذبات بھڑکتے گیے۔ اس نے سوچا، ’’جب میرے دل میں اس طرح حمیدہ کے خیالات آرہے ہیں تو کیا اس کے دل میں اسی طرح میرے خیالات نہ آ رہے ہوں گے؟ میں آخر اس کے پاس اسی وقت کیوں نہ جاؤں؟ آخر کو وہ میری بیوی ہے۔ کیا میں اس سے ملنے سے ڈرتا ہوں۔ نہیں، ہرگز نہیں!‘‘
اکبر جلدی سے کھڑا ہو گیا اور انگنائی میں نکل کر دلہن کے کمرے کی طرف چلا۔ چبوترے سے اترتے وقت یکایک اس کے دل میں یہ خیال آیا، ’’شاید ظاہرداری کے لیے لوگ ’’انگارے‘‘ کی برائی کرتے تھے۔ ورنہ بہت سوں نے تو اسے چھپ چھپ کر پڑھا، چوری سے۔ اسی طرح جیسے میں اپنی بیوی کے پاس چوری سے جا رہا ہوں۔ لوگ غالباً انگارے کو چوری سے پڑھتے تھے۔‘‘ یہ سوچ کر اس کے چہرہ پر مسکراہٹ کی ایک جھلک پھر گئی۔ ’’جھوٹ۔ سب جھوٹ۔ لوگ اپنی زندگی جھوٹ سے بناتے ہیں۔‘‘ یہ سوچتے ہوئے اس نے چبوترے کی سیڑھی سے پاؤں نیچے رکھا۔
گھنٹے نے کہیں دور ٹن ٹن ٹن تین بجائے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.