Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

طنز و مزاح پر اشعار

طنزومزاح کی شاعری بیک

وقت کئی ڈائمنشن رکھتی ہے ، اس میں ہنسنے ہنسانے اور زندگی کی تلخیوں کو قہقہے میں اڑانے کی سکت بھی ہوتی ہے اور مزاح کے پہلو میں زندگی کی ناہمواریوں اورانسانوں کے غلط رویوں پر طنز کرنے کا موقع بھی ۔ طنز اور مزاح کے پیرائے میں ایک تخلیق کار وہ سب کہہ جاتا ہے جس کے اظہار کی عام زندگی میں توقع بھی نہیں کی جاسکتی۔ یہ شاعری پڑھئے اور زندگی کے ان دلچسپ علاقوں کی سیر کیجئے۔

کوٹ اور پتلون جب پہنا تو مسٹر بن گیا

جب کوئی تقریر کی جلسے میں لیڈر بن گیا

اکبر الہ آبادی

اور تو کچھ بھی نہیں حضرت ماچسؔ لیکن

آپ میں آگ لگانے کا کمال اچھا ہے

ماچس لکھنوی

چائے بھی اچھی بناتی ہیں مری بیگم مگر

منہ بنانے میں تو ان کا کوئی ثانی ہی نہیں

انور مسعود

وہ ان کا زمانہ تھا جہاں عقل بڑی تھی

یہ میرا زمانہ ہے یہاں بھینس بڑی ہے

ماچس لکھنوی

پروفیسر یہ اردو کے جو اردو سے کماتے ہیں

اسی پیسے سے بچوں کو یہ انگریزی پڑھاتے ہیں

احمد علوی

نرس کو دیکھ کے آ جاتی ہے منہ پہ رونق

وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے

رؤف رحیم

علم حاصل کر کے بھی ملتی نہیں ہے نوکری

رحم کے قابل ہے بس حالت ہماری ان دنوں

رنجور عظیم آبادی

پہلے ہم کو بہن کہا اب فکر ہمیں سے شادی کی

یہ بھی نہ سوچا بہن سے شادی کر کے کیا کہلائیں گے

راجہ مہدی علی خاں

کلام میر سمجھے اور زبان میرزا سمجھے

مگر ان کا کہا یا آپ سمجھیں یا خدا سمجھے

عیش دہلوی

وہاں جو لوگ اناڑی ہیں وقت کاٹتے ہیں

یہاں بھی کچھ متشاعر دماغ چاٹتے ہیں

دلاور فگار

جوتے کے انتخاب کو مسجد میں جب گئے

وہ جوتیاں پڑیں کہ خدا یاد آ گیا

دلاور فگار

آ کے بزم شعر میں شرط وفا پوری تو کر

جتنا کھانا کھا گیا ہے اتنی مزدوری تو کر

دلاور فگار

جو چاہتا ہے کہ بن جائے وہ بڑا شاعر

وہ جا کے دوستی گانٹھے کسی مدیر کے ساتھ

ظفر کمالی

چہرے تو جھریوں سے بھرے دل جوان ہیں

دن میں ہیں شیخ رات میں سلمان خان ہیں

ساغر خیامی

پریشانی سے سر کے بال تک سب جھڑ گئے لیکن

پرانی جیب میں کنگھی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے

غوث خواہ مخواہ حیدرآبادی

دس بچوں کے ابا ہیں مگر ہے یہی خواہش

ہر وقت ہی بیٹھی رہے لیلیٰ مرے آگے

نظر برنی

درگت بنے ہے چائے میں بسکٹ کی جس طرح

شادی کے بعد لوگو وہی میرا حال ہے

نشتر امروہوی

ہم مانتے ہیں آپ بڑے غم گسار ہیں

لیکن یہ آستین میں کیا ہے دکھائیے

اقبال عظیم

ایک قیدی صبح کو پھانسی لگا کر مر گیا

رات بھر غزلیں سنائیں اس کو تھانے دار نے

ساغر خیامی

داڑھی کا نام لے کے ہمیں کیوں ہو ٹوکتی

داڑھی کوئی بریک ہے جو سائیکل کو روکتی

عادل لکھنوی

ان کے گناہ کیا کہیں کس کس کے سر گئے

تم کو خبر نہیں کئی استاد مر گئے

ساغر خیامی

پتہ ہوتا تو نہ کرتا کبھی کوئی نیکی

تمہیں جنت میں ملو گی مجھے معلوم نہ تھا

روحی کنجاہی

نام کے ساتھ ایک دو الفاظ کی دم چاہیئے

شعر پھیکا ہی سہی لیکن ترنم چاہیئے

حاجی لق لق

ہمارے لال کو درکار ہے وہی لڑکی

کہ جس کا باپ پولس میں ہو کم سے کم ڈپٹی

ساغر خیامی

عزت ہے گدھوں کی نہ ٹھکانہ ہے گدھوں کا

لیڈر یہی کہتا ہے زمانہ ہے گدھوں کا

ہرفن لکھنوی

یہاں تک سلسلہ پہنچا ہے اس کی کم بیانی کا

وہ نو بچوں کی ماں ہے پھر بھی دعویٰ ہے جوانی کا

اسد جعفری

واعظ نے مجھ میں دیکھی ہے ایمان کی کمی

واعظ میں صرف دم کی کسر دیکھتا ہوں میں

ماچس لکھنوی

جس مولوی کو آگے پڑھانا تھا میرا عقد

ٹھہرا ہے ان کا عقد اسی مولوی کے ساتھ

ماچس لکھنوی

جو اپنا بھائی ہے رہتا ہے وہ پاؤں کی ٹھوکر میں

مگر جورو کا بھائی تو گلے کا ہار ہوتا ہے

ظفر کمالی

الیکشن پھر وہ ذی الحج کے مہینے میں کرائیں گے

تو کیا دو دانت کے ووٹر کی پھر قربانیاں ہوں گی

خالد عرفان

زمانے کا چلن کیا پوچھتے ہو ؔخواہ مخواہ مجھ سے

وہی رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے

غوث خواہ مخواہ حیدرآبادی

پوری دنیا میں حکومت جو زنانی ہوتی

عالمی جنگ جو ہوتی تو زبانی ہوتی

ساغر خیامی

لیکن کلام کیجئے مجھ سے ادب کے ساتھ

نوکر ہوں کوئی آپ کا شوہر نہیں ہوں میں

انعام الحق جاوید

ڈھونڈئیے خیر سے جا کر کوئی موٹی سسرال

ہاتھ جو مفت میں آئے تو وہ مال اچھا ہے

ماچس لکھنوی

کفن کی قیمت سنیں گے مردے تو اس کے صدمے سے جی اٹھیں گے

جنازہ اٹھے گا اب کسی کا نہ اب کسی کا مزار ہوگا

اکبر لاہوری

دیا ہے نام کفن چور جب سے تم نے مجھے

پرانی قبروں کے مردے مری تلاش میں ہیں

پاگل عادل آبادی

انورؔ خدا کرے کہ یہ سچی نہ ہو خبر

اکیسویں صدی میں وڈیرے بھی جائیں گے

انور مسعود

ڈاکٹر کی فیس کا سن کر مریض محترم

آپریشن سے ہی پہلے کوچ فرمائیں گے کیا

سید فہیم الدین

وہ ڈگری کی بجائے میم لے کر لوٹ آیا ہے

ملا تھا داخلہ جس کو سمندر پار کالج میں

انعام الحق جاوید

آئی صدائے حق کہ یہی بند و بست ہیں

تیرے وطن کے لوگ تو مردہ پرست ہیں

ساغر خیامی

مہندی لگے وہ ہاتھ وہ مینا سی انگلیاں

ہم کو تباہ کر گئیں دلی کی لڑکیاں

ساغر خیامی

میں نے ہر فائل کی دمچی پر یہ مصرع لکھ دیا

کام ہو سکتا نہیں سرکار میں روزے سے ہوں

سید ضمیر جعفری

یہاں ہم بیٹھ کر چائے کے اک کپ کو ترستے ہیں

وہاں سب لے کے بسکٹ کیک کے انبار بیٹھے ہیں

حماد حسن

بہت دبلی بہت پتلی حیاتی ہوتی جاتی ہے

چپاتی رفتہ رفتہ کاغذاتی ہوتی جاتی ہے

عبیر ابوذری

واعظ کو جو دیکھو تو گھٹا ٹوپ اندھیرا

ساقی کو جو دیکھو تو کرن پھوٹ رہی ہے

ماچس لکھنوی

شیخ صاحب نے مسائل میں جکڑ رکھا ہے

ورنہ اسلام تو آسان تھا اچھا خاصا

اسامہ منیر

فاتحہ خوانی میں احباب اڑائیں گے پلاؤ

اور کریں گے مری بخشش کی دعا میرے بعد

مجید لاہوری

Jashn-e-Rekhta 10th Edition | 5-6-7 December Get Tickets Here

بولیے