Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Azhar Inayati's Photo'

اظہر عنایتی

1946 | رام پور, انڈیا

رام پور دبستان کے اہم شاعر/ محشر عنایتی کے شاگرد

رام پور دبستان کے اہم شاعر/ محشر عنایتی کے شاگرد

اظہر عنایتی کے اشعار

13.6K
Favorite

باعتبار

کیا رہ گیا ہے شہر میں کھنڈرات کے سوا

کیا دیکھنے کو اب یہاں آئے ہوئے ہیں لوگ

چوراہوں کا تو حسن بڑھا شہر کے مگر

جو لوگ نامور تھے وہ پتھر کے ہو گئے

جوان ہو گئی اک نسل سنتے سنتے غزل

ہم اور ہو گئے بوڑھے غزل سناتے ہوئے

اپنی تصویر بناؤ گے تو ہوگا احساس

کتنا دشوار ہے خود کو کوئی چہرہ دینا

ہمارے سر کی بلندی تک آؤ تو دیکھو

فراز دار سے کیا کیا دکھائی دیتا ہے

نیا خوں رگوں میں رواں کر دیا

غزل ہم نے تجھ کو جواں کر دیا

کسی کے عیب چھپانا ثواب ہے لیکن

کبھی کبھی کوئی پردہ اٹھانا پڑتا ہے

شکستگی میں بھی کیا شان ہے عمارت کی

کہ دیکھنے کو اسے سر اٹھانا پڑتا ہے

یہ بھی رہا ہے کوچۂ جاناں میں اپنا رنگ

آہٹ ہوئی تو چاند دریچے میں آ گیا

سنبھل کے چلنے کا سارا غرور ٹوٹ گیا

اک ایسی بات کہی اس نے لڑکھڑاتے ہوئے

اب مرے بعد کوئی سر بھی نہیں ہوگا طلوع

اب کسی سمت سے پتھر بھی نہیں آئے گا

ہر ایک رات کو مہتاب دیکھنے کے لیے

میں جاگتا ہوں ترا خواب دیکھنے کے لیے

گھر سے کس طرح میں نکلوں کہ یہ مدھم سا چراغ

میں نہیں ہوں گا تو تنہائی میں بجھ جائے گا

وہ تڑپ جائے اشارہ کوئی ایسا دینا

اس کو خط لکھنا تو میرا بھی حوالہ دینا

پلٹ چلیں کہ غلط آ گئے ہمیں شاید

رئیس لوگوں سے ملنے کے وقت ہوتے ہیں

تمام شہر سے بد ظن کرا دیا شہہ کو

مصاحبوں کا خدا جانے تھا ارادہ کیا

کبھی قریب کبھی دور ہو کے روتے ہیں

محبتوں کے بھی موسم عجیب ہوتے ہیں

جہاں ضدیں کیا کرتا تھا بچپنا میرا

کہاں سے لاؤں کھلونوں کی ان دکانوں کو

لوگ یوں کہتے ہیں اپنے قصے

جیسے وہ شاہ جہاں تھے پہلے

راستو کیا ہوئے وہ لوگ کہ آتے جاتے

میرے آداب پہ کہتے تھے کہ جیتے رہیے

ہم عصروں میں یہ چھیڑ چلی آئی ہے اظہرؔ

یاں ذوقؔ نے غالبؔ کو بھی غالب نہیں سمجھا

میں جسے ڈھونڈنے نکلا تھا اسے پا نہ سکا

اب جدھر جی ترا چاہے مجھے خوشبو لے جا

آج بھی شام غم! اداس نہ ہو

مانگ کر میں چراغ لاتا ہوں

کرنے کو روشنی کے تعاقب کا تجربہ

کچھ دور میرے ساتھ بھی پرچھائیاں گئیں

یہ الگ بات کہ میں نوح نہیں تھا لیکن

میں نے کشتی کو غلط سمت میں بہنے نہ دیا

آج شہروں میں ہیں جتنے خطرے

جنگلوں میں بھی کہاں تھے پہلے

میری خاموشی پہ تھے جو طعنہ زن

شور میں اپنے ہی بہرے ہو گئے

یہ اور بات کہ آندھی ہمارے بس میں نہیں

مگر چراغ جلانا تو اختیار میں ہے

وہ جس کے صحن میں کوئی گلاب کھل نہ سکا

تمام شہر کے بچوں سے پیار کرتا تھا

وہ تازہ دم ہیں نئے شعبدے دکھاتے ہوئے

عوام تھکنے لگے تالیاں بجاتے ہوئے

عجب جنون ہے یہ انتقام کا جذبہ

شکست کھا کے وہ پانی میں زہر ڈال آیا

سب دیکھ کر گزر گئے اک پل میں اور ہم

دیوار پر بنے ہوئے منظر میں کھو گئے

ہوا اجالا تو ہم ان کے نام بھول گئے

جو بجھ گئے ہیں چراغوں کی لو بڑھاتے ہوئے

اس راستے میں جب کوئی سایہ نہ پائے گا

یہ آخری درخت بہت یاد آئے گا

جوانوں میں تصادم کیسے رکتا

قبیلے میں کوئی بوڑھا نہیں تھا

نقش مٹتے ہیں تو آتا ہے خیال

ریت پر ہم بھی کہاں تھے پہلے

تمام شہر میں کس طرح چاندنی پھیلی

کہ ماہتاب تو کل رات میرے گھر میں تھا

پرانے عہد میں بھی دشمنی تھی

مگر ماحول زہریلا نہیں تھا

مجھ کو بھی جاگنے کی اذیت سے دے نجات

اے رات اب تو گھر کے در و بام سو گئے

غزل کا شعر تو ہوتا ہے بس کسی کے لیے

مگر ستم ہے کہ سب کو سنانا پڑتا ہے

اس کار آگہی کو جنوں کہہ رہے ہیں لوگ

محفوظ کر رہے ہیں فضا میں صدائیں ہم

ان کے بھی اپنے خواب تھے اپنی ضرورتیں

ہم سایے کا مگر وہ گلا کاٹتے رہے

خود اپنے پاؤں بھی لوگوں نے کر لیے زخمی

ہماری راہ میں کانٹے یہاں بچھاتے ہوئے

تاریخ بھی ہوں اتنے برس کی مورخو

چہرے پہ میرے جتنے برس کی یہ گرد ہے

خود کشی کے لیے تھوڑا سا یہ کافی ہے مگر

زندہ رہنے کو بہت زہر پیا جاتا ہے

اپنے آنچل میں چھپا کر مرے آنسو لے جا

یاد رکھنے کو ملاقات کے جگنو لے جا

یہ مسخروں کو وظیفے یوں ہی نہیں ملتے

رئیس خود نہیں ہنستے ہنسانا پڑتا ہے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے