Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Josh Malihabadi's Photo'

جوش ملیح آبادی

1898 - 1982 | اسلام آباد, پاکستان

سب سے شعلہ مزاج ترقی پسند شاعر، شاعر انقلاب کے طور پر معروف

سب سے شعلہ مزاج ترقی پسند شاعر، شاعر انقلاب کے طور پر معروف

جوش ملیح آبادی کے اشعار

35.1K
Favorite

باعتبار

دل کی چوٹوں نے کبھی چین سے رہنے نہ دیا

جب چلی سرد ہوا میں نے تجھے یاد کیا

حد ہے اپنی طرف نہیں میں بھی

اور ان کی طرف خدائی ہے

میرے رونے کا جس میں قصہ ہے

عمر کا بہترین حصہ ہے

ایک دن کہہ لیجیے جو کچھ ہے دل میں آپ کے

ایک دن سن لیجیے جو کچھ ہمارے دل میں ہے

مجھ کو تو ہوش نہیں تم کو خبر ہو شاید

لوگ کہتے ہیں کہ تم نے مجھے برباد کیا

کسی کا عہد جوانی میں پارسا ہونا

قسم خدا کی یہ توہین ہے جوانی کی

تبسم کی سزا کتنی کڑی ہے

گلوں کو کھل کے مرجھانا پڑا ہے

صرف اتنے کے لیے آنکھیں ہمیں بخشی گئیں

دیکھیے دنیا کے منظر اور بہ عبرت دیکھیے

کشتیٔ مے کو حکم روانی بھی بھیج دو

جب آگ بھیج دی ہے تو پانی بھی بھیج دو

اس نے وعدہ کیا ہے آنے کا

رنگ دیکھو غریب خانے کا

انسان کے لہو کو پیو اذن عام ہے

انگور کی شراب کا پینا حرام ہے

وہاں سے ہے مری ہمت کی ابتدا واللہ

جو انتہا ہے ترے صبر آزمانے کی

آڑے آیا نہ کوئی مشکل میں

مشورے دے کے ہٹ گئے احباب

کام ہے میرا تغیر نام ہے میرا شباب

میرا نعرہ انقلاب و انقلاب و انقلاب

ثبوت ہے یہ محبت کی سادہ لوحی کا

جب اس نے وعدہ کیا ہم نے اعتبار کیا

اس دل میں ترے حسن کی وہ جلوہ گری ہے

جو دیکھے ہے کہتا ہے کہ شیشے میں پری ہے

اس کا رونا نہیں کیوں تم نے کیا دل برباد

اس کا غم ہے کہ بہت دیر میں برباد کیا

وہ کریں بھی تو کن الفاظ میں تیرا شکوہ

جن کو تیری نگہ لطف نے برباد کیا

آپ سے ہم کو رنج ہی کیسا

مسکرا دیجئے صفائی سے

ہم ایسے اہل نظر کو ثبوت حق کے لیے

اگر رسول نہ ہوتے تو صبح کافی تھی

سوز غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا

جا تجھے کشمکش دہر سے آزاد کیا

اب تک نہ خبر تھی مجھے اجڑے ہوئے گھر کی

وہ آئے تو گھر بے سر و ساماں نظر آیا

کوئی آیا تری جھلک دیکھی

کوئی بولا سنی تری آواز

ہم گئے تھے اس سے کرنے شکوۂ درد فراق

مسکرا کر اس نے دیکھا سب گلہ جاتا رہا

اتنا مانوس ہوں فطرت سے کلی جب چٹکی

جھک کے میں نے یہ کہا مجھ سے کچھ ارشاد کیا؟

ہاں آسمان اپنی بلندی سے ہوشیار

اب سر اٹھا رہے ہیں کسی آستاں سے ہم

جتنے گدا نواز تھے کب کے گزر چکے

اب کیوں بچھائے بیٹھے ہیں ہم بوریا نہ پوچھ

گزر رہا ہے ادھر سے تو مسکراتا جا

چراغ مجلس روحانیاں جلاتا جا

اک نہ اک ظلمت سے جب وابستہ رہنا ہے تو جوشؔ

زندگی پر سایۂ زلف پریشاں کیوں نہ ہو

ہر ایک کانٹے پہ سرخ کرنیں ہر اک کلی میں چراغ روشن

خیال میں مسکرانے والے ترا تبسم کہاں نہیں ہے

ملا جو موقع تو روک دوں گا جلالؔ روز حساب تیرا

پڑھوں گا رحمت کا وہ قصیدہ کہ ہنس پڑے گا عذاب تیرا

بادباں ناز سے لہرا کے چلی باد مراد

کارواں عید منا قافلہ سالار آیا

ادھر تیری مشیت ہے ادھر حکمت رسولوں کی

الٰہی آدمی کے باب میں کیا حکم ہوتا ہے

پہچان گیا سیلاب ہے اس کے سینے میں ارمانوں کا

دیکھا جو سفینے کو میرے جی چھوٹ گیا طوفانوں کا

اب اے خدا عنایت بے جا سے فائدہ

مانوس ہو چکے ہیں غم جاوداں سے ہم

بگاڑ کر بنائے جا ابھار کر مٹائے جا

کہ میں ترا چراغ ہوں جلائے جا بجھائے جا

اللہ رے حسن دوست کی آئینہ داریاں

اہل نظر کو نقش بہ دیوار کر دیا

اب دل کا سفینہ کیا ابھرے طوفاں کی ہوائیں ساکن ہیں

اب بحر سے کشتی کیا کھیلے موجوں میں کوئی گرداب نہیں

دنیا نے فسانوں کو بخشی افسردہ حقائق کی تلخی

اور ہم نے حقائق کے نقشے میں رنگ بھرا افسانوں کا

ذرا آہستہ لے چل کاروان کیف و مستی کو

کہ سطح ذہن عالم سخت نا ہموار ہے ساقی

محفل عشق میں وہ نازش دوراں آیا

اے گدا خواب سے بیدار کہ سلطاں آیا

ملے جو وقت تو اے رہرو رہ اکسیر

حقیر خاک سے بھی ساز باز کرتا جا

شباب رفتہ کے قدم کی چاپ سن رہا ہوں میں

ندیم عہد شوق کی سنائے جا کہانیاں

فغاں کہ مجھ غریب کو حیات کا یہ حکم ہے

سمجھ ہر ایک راز کو مگر فریب کھائے جا

نقش خیال دل سے مٹایا نہیں ہنوز

بے درد میں نے تجھ کو بھلایا نہیں ہنوز

ہاں کون پوچھتا ہے خوشی کا نہفتہ راز

پھر غم کا بار دل پہ اٹھائے ہوئے ہیں ہم

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے