Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

انسان پر اشعار

شاعری میں انسان کے طور

طریقوں ، اس کے اخلاق وعادات ، اس کی انسانی کمزوریوں اور قوتوں اور اچھے برے رویوں کو کثرت سے موضوع بنایا گیا ہے ۔ شاعری کا یہ حصہ انسانی فطرت کے ان باریک پہلوؤں کو بھی موضوع بناتا ہے جو عام زندگی میں نگاہوں سے اوجھل رہتے ہیں ۔ ہمارے اس انتخاب میں موجود انسان کی یہ کہانی بہت رنگارنگ اور دلچسپ ہے ساتھ ہی اس کے باطن کو روشن کرنے والی ہے ۔

بستی میں اپنی ہندو مسلماں جو بس گئے

انساں کی شکل دیکھنے کو ہم ترس گئے

کیفی اعظمی

کیا ترے شہر کے انسان ہیں پتھر کی طرح

کوئی نغمہ کوئی پائل کوئی جھنکار نہیں

کاملؔ بہزادی

ظفرؔ آدمی اس کو نہ جانئے گا وہ ہو کیسا ہی صاحب فہم و ذکا

جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا

بہادر شاہ ظفر

مری زبان کے موسم بدلتے رہتے ہیں

میں آدمی ہوں مرا اعتبار مت کرنا

عاصم واسطی

اس دور میں انسان کا چہرہ نہیں ملتا

کب سے میں نقابوں کی تہیں کھول رہا ہوں

مغیث الدین فریدی

نہ تو میں حور کا مفتوں نہ پری کا عاشق

خاک کے پتلے کا ہے خاک کا پتلا عاشق

پیر شیر محمد عاجز

کفر و اسلام کی کچھ قید نہیں اے آتشؔ

شیخ ہو یا کہ برہمن ہو پر انساں ہووے

حیدر علی آتش

آدمی کے پاس سب کچھ ہے مگر

ایک تنہا آدمیت ہی نہیں

جگر مراد آبادی

آدمی کیا وہ نہ سمجھے جو سخن کی قدر کو

نطق نے حیواں سے مشت خاک کو انساں کیا

حیدر علی آتش

آدمی کا آدمی ہر حال میں ہمدرد ہو

اک توجہ چاہئے انساں کو انساں کی طرف

حفیظ جونپوری

آدمی آدمی سے ملتا ہے

دل مگر کم کسی سے ملتا ہے

جگر مراد آبادی

برا برے کے علاوہ بھلا بھی ہوتا ہے

ہر آدمی میں کوئی دوسرا بھی ہوتا ہے

انور شعور

اے آسمان تیرے خدا کا نہیں ہے خوف

ڈرتے ہیں اے زمین ترے آدمی سے ہم

نامعلوم

اہل معنی جز نہ بوجھے گا کوئی اس رمز کو

ہم نے پایا ہے خدا کو صورت انساں کے بیچ

شیخ ظہور الدین حاتم

ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی

جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا

ندا فاضلی

عالم کے مرقع کو کیا سیر میں لیکن

اس میں بھی کوئی صورت انسان نہ نکلی

مصحفی غلام ہمدانی

کوئی ہندو کوئی مسلم کوئی عیسائی ہے

سب نے انسان نہ بننے کی قسم کھائی ہے

ندا فاضلی

بہت ہیں سجدہ گاہیں پر در جاناں نہیں ملتا

ہزاروں دیوتا ہیں ہر طرف انساں نہیں ملتا

خالد حسن قادری

خود کو بکھرتے دیکھتے ہیں کچھ کر نہیں پاتے ہیں

پھر بھی لوگ خداؤں جیسی باتیں کرتے ہیں

افتخار عارف

شام منبر پر فضیلت کے بہت سنجیدہ فرحاں

صبح دم افسردگی کے فرش پر بکھرا ہوا میں

سراج اجملی

فرشتے سے بڑھ کر ہے انسان بننا

مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ

الطاف حسین حالی

بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا

آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا

تشریح

اردو شاعری میں آدمی اور انسان کے فرق کو غالبؔ نے پہلی بار اجاگر کیا۔ اُن سے پہلے نظیراکبرآبادی نے ’’آدمی نامہ‘‘ نامہ میں آدمی کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے:

یاں آدمی پہ جان کو وارے ہے آدمی

اور آدمی کو جان سے مارے ہے آدمی

چلا کے آدمی کو پکارے ہے آدمی

جو سُن کے دوڑتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

ان مصرعوں میں انسان کا کوئی تذکرہ نہیں۔ غالبؔ کے بعد مشہور شاعر حالیؔ نے کہا:

فرشتے سے بہتر ہے انسان بننا

مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ

اس شعر سے آدمی غائب ہے۔ غالبؔ نے آدمی اور انسان میں فرق ضرور کیا لیکن کسی بھی طرح آدمی کے لئے حقارت اور انسان کے لئے عقیدت کا اظہار نہیں کیا۔ انھوں نے پہلے ہی مصرع میں کہہ دیا کہ ہر کام آسان نہیں ہوتا اور دوسرے مصرع میں بتا دیا کہ انسان بننا تو آدمی کو ہی میسر نہیں۔ میسر ہونا کے معنی ہیں آسان ہونا۔ یہ دشوار ہونے کی ضد ہے۔ دو الفاظ جو معنی میں ایک دوسرے سے قریب ہوں یا پھر ایک دوسرے کے مخالف ہوں، ایک ہی شعر میں جمع کرنے سے شعر میں تناؤ اور حسن پیدا ہوتا ہے۔ غالبؔ کہتے ہیں کہ اگرچہ آدمی حیوانی سلسلے میں چوٹی پر ہے اور قدرت نے اسے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے پھر بھی اس کے لیے انسان بننا کوئی آسان کام نہیں۔ دوسرے الفاظ میں اگر آدمی، انسان بننے کی منزل تک نہ پہنچ سکے تب بھی وہ قابل ملامت نہیں کیونکہ یہ کام ہے ہی اتنا مشکل۔ یہاں غالبؔ غلطیوں، کوتاہیوں اور خطاؤں کے پتلے آدمی کا دفاع کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ غالبؔ چیزوں کو جس بلند مقام سے دیکھتے ہیں وہاں ہر چھوٹا اور بڑا، اچھا اور برا سب ایک ڈرامے کے کردار بن جاتے ہیں۔ غالبؔ کسی چیز کو عام آدمی کی نگاہ سے دیکھتے ہی نہیں۔ ان کے یہاں زبردست حقیقت پسندی نظر آتی ہے۔ انہوں نے اپنی غیر جذباتی حقیقت پسندی کو جس طرح شاعری کے سانچے میں ڈھالا ہے انھیں کا کمال ہے۔

مرزا غالب

مرزا غالب

جس کی ادا ادا پہ ہو انسانیت کو ناز

مل جائے کاش ایسا بشر ڈھونڈتے ہیں ہم

عاجز ماتوی

دیوتا بننے کی حسرت میں معلق ہو گئے

اب ذرا نیچے اتریے آدمی بن جائیے

سلیم احمد

ادھر تیری مشیت ہے ادھر حکمت رسولوں کی

الٰہی آدمی کے باب میں کیا حکم ہوتا ہے

جوش ملیح آبادی

میری رسوائی کے اسباب ہیں میرے اندر

آدمی ہوں سو بہت خواب ہیں میرے اندر

اسعد بدایونی

گرجا میں مندروں میں اذانوں میں بٹ گیا

ہوتے ہی صبح آدمی خانوں میں بٹ گیا

ندا فاضلی

فرشتہ ہے تو تقدس تجھے مبارک ہو

ہم آدمی ہیں تو عیب و ہنر بھی رکھتے ہیں

دل ایوبی

انسان کی بلندی و پستی کو دیکھ کر

انساں کہاں کھڑا ہے ہمیں سوچنا پڑا

حبیب حیدرآبادی

بنا رہا ہوں میں فہرست چھوٹے لوگوں کی

ملال یہ کہ بڑے نام اس میں آتے ہیں

اعجاز توکل

آخر انسان ہوں پتھر کا تو رکھتا نہیں دل

اے بتو اتنا ستاؤ نہ خدارا مجھ کو

اسد علی خان قلق

زمیں نے خون اگلا آسماں نے آگ برسائی

جب انسانوں کے دل بدلے تو انسانوں پہ کیا گزری

ساحر لدھیانوی

یوں سراپا التجا بن کر ملا تھا پہلے روز

اتنی جلدی وہ خدا ہو جائے گا سوچا نہ تھا

سراج اجملی

روپ رنگ ملتا ہے خد و خال ملتے ہیں

آدمی نہیں ملتا آدمی کے پیکر میں

خوشبیر سنگھ شادؔ

سامنے ہے جو اسے لوگ برا کہتے ہیں

جس کو دیکھا ہی نہیں اس کو خدا کہتے ہیں

سدرشن فاکر

آدمی سے آدمی کی جب نہ حاجت ہو روا

کیوں خدا ہی کی کرے اتنی نہ پھر یاد آدمی

مصحفی غلام ہمدانی

اسی لئے تو یہاں اب بھی اجنبی ہوں میں

تمام لوگ فرشتے ہیں آدمی ہوں میں

بشیر بدر

وہ جنگلوں میں درختوں پہ کودتے پھرنا

برا بہت تھا مگر آج سے تو بہتر تھا

محمد علوی

اے شیخ آدمی کے بھی درجے ہیں مختلف

انسان ہیں ضرور مگر واجبی سے آپ

بیخود دہلوی

جانور آدمی فرشتہ خدا

آدمی کی ہیں سیکڑوں قسمیں

الطاف حسین حالی

ہزار چہرے ہیں موجود آدمی غائب

یہ کس خرابے میں دنیا نے لا کے چھوڑ دیا

شہزاد احمد

آدمیت اور شے ہے علم ہے کچھ اور شے

کتنا طوطے کو پڑھایا پر وہ حیواں ہی رہا

شیخ ابراہیم ذوقؔ

دیوتاؤں کا خدا سے ہوگا کام

آدمی کو آدمی درکار ہے

فراق گورکھپوری

بھیڑ تنہائیوں کا میلا ہے

آدمی آدمی اکیلا ہے

صبا اکبرآبادی

بنایا اے ظفرؔ خالق نے کب انسان سے بہتر

ملک کو دیو کو جن کو پری کو حور و غلماں کو

بہادر شاہ ظفر

گھروں پہ نام تھے ناموں کے ساتھ عہدے تھے

بہت تلاش کیا کوئی آدمی نہ ملا

بشیر بدر

پھول کر لے نباہ کانٹوں سے

آدمی ہی نہ آدمی سے ملے

خمار بارہ بنکوی

روئے زمیں پہ چار عرب میرے عکس ہیں

ان میں سے میں بھی ایک ہوں چاہے کہیں ہوں میں

رئیس فروغ

سایہ ہے کم کھجور کے اونچے درخت کا

امید باندھئے نہ بڑے آدمی کے ساتھ

کیف بھوپالی

غیب کا ایسا پرندہ ہے زمیں پر انساں

آسمانوں کو جو شہ پر پہ اٹھائے ہوئے ہے

خورشید اکبر
بولیے