Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

کیف احمد صدیقی

1943 - 1986 | سیتا پور, انڈیا

کیف احمد صدیقی کے اشعار

5.2K
Favorite

باعتبار

وہ خود ہی اپنی آگ میں جل کر فنا ہوا

جس سائے کی تلاش میں یہ آفتاب ہے

سرد جذبے بجھے بجھے چہرے

جسم زندہ ہیں مر گئے چہرے

آج کچھ ایسے شعلے بھڑکے بارش کے ہر قطرے سے

دھوپ پناہیں مانگ رہی ہے بھیگے ہوئے درختوں میں

چمن میں شدت درد نمود سے غنچے

تڑپ رہے ہیں مگر مسکرائے جاتے ہیں

آج پھر شاخ سے گرے پتے

اور مٹی میں مل گئے پتے

ہم آج کچھ حسین سرابوں میں کھو گئے

آنکھیں کھلیں تو جاگتے خوابوں میں کھو گئے

محسوس ہو رہا ہے کہ میں خود سفر میں ہوں

جس دن سے ریل پر میں تجھے چھوڑنے گیا

تنہائیوں کو سونپ کے تاریکیوں کا زہر

راتوں کو بھاگ آئے ہم اپنے مکان سے

کیفؔ کہاں تک تم خود کو بے داغ رکھو گے

اب تو ساری دنیا کے منہ پر سیاہی ہے

خوشی کی آرزو کیا دل میں ٹھہرے

ترے غم نے بٹھا رکھے ہیں پہرے

اک برس بھی ابھی نہیں گزرا

کتنی جلدی بدل گئے چہرے

کیفؔ یوں آغوش فن میں ذہن کو نیند آ گئی

جیسے ماں کی گود میں بچہ سسک کر سو گیا

تنہائی کی دلہن اپنی مانگ سجائے بیٹھی ہے

ویرانی آباد ہوئی ہے اجڑے ہوئے درختوں میں

خدا معلوم کس آواز کے پیاسے پرندے

وہ دیکھو خامشی کی جھیل میں اترے پرندے

Recitation

بولیے