چائے پر اشعار
چائے صرف ایک مشروب نہیں
ایک احساس ہے، ایک لمحہ ہے، ایک ساتھی ہے۔ اس کلیکشن میں ہم نے وہ اشعار منتخب کیے ہیں جو چائے کے ساتھ جڑی ہوئی گرم جوشی، یادوں کی خوشبو، اور خاموش مسرت کو بیان کرتے ہیں۔ چاہے وہ بارش میں تنہائی ہو، محفل میں قہقہے ہوں، یا خاموشی میں بھیگی یادیں — یہ منتخب اشعار چائے کی ہر گھونٹ پر ایک تازہ احساس کا لطف دیتے ہیں۔
اک ہاتھ میں میرے چائے کا کپ اک ہاتھ میں میرے ہاتھ ترا
ہاتھوں کو طلب ہے ہاتھوں کی اور دل کو طلب ہے ساتھ ترا
چھوڑ آیا تھا میز پر چائے
یہ جدائی کا استعارا تھا
آج پھر چائے بناتے ہوئے وہ یاد آیا
آج پھر چائے میں پتی نہیں ڈالی میں نے
شعر جیسا بھی ہو اس شہر میں پڑھ سکتے ہو
چائے جیسی بھی ہو آسام میں بک جاتی ہے
نہیں ہے گھر میں تری یاد کے علاوہ کچھ
تو کس کے سامنے چائے بنا کے رکھتی ہوں
چائے کی پیالی میں نیلی ٹیبلٹ گھولی
سہمے سہمے ہاتھوں نے اک کتاب پھر کھولی
ٹھنڈی چائے کی پیالی پی کے
رات کی پیاس بجھائی ہے
تیرے ہاتھ کی چائے تو پی تھی
دل کا رنج تو دل میں رہا تھا
شام کی چائے ان کے ساتھ پیوں
دل کی حسرت بہت پرانی ہے
آ ترے سنگ ذرا پینگ بڑھائی جائے
زندگی بیٹھ تجھے چائے پلائی جائے
ہنس پڑی شام کی اداس فضا
اس طرح چائے کی پیالی ہنسی
میں نے پوچھا ہے کہ چائے کے لیے وقت کوئی
ہنس کے بولی ہے اشارے سے گھڑی ٹھیک نہیں
ہم جہاں چائے پینے جاتے تھے
کیا وہاں اب بھی آیا کرتے تھے
سامنے رکھ کے چائے کی پیالی
چسکی چسکی تری کمی چکھی
سستے میں ان کو بھولنا اچھا لگا ہے آج
چائے کا ایک گھونٹ بھی کافی رہا ہے آج
میں اس کی چائے کی پیالی تھی لیکن
اسے پینے کی جرأت ہی نہیں تھی
چائے کی برکت سے خالی ہیں
دیر میں اکثر اٹھنے والے
آپ اخبار دیکھیے تب تک
میں ابھی چائے لے کر آتی ہوں
ایسی چائے کبھی نہ پی میں نے
سچ بتا تو نے اس میں کیا ڈالا
تیری ٹینشن میں پینا بھول گئی
چائے تو سامنے رکھی ہوئی تھی
تھوڑی دیر میں ٹرین نکلنے والی ہے
سن تھوڑی ہی دیر میں چائے آتی ہے
چائے کے ایک کپ کا یہی ہے معاوضہ
یاروں کو عہد رفتہ کے قصے سنائیے
چائے پینا تو اک بہانہ تھا
آرزو دل کی ترجمانی تھی
پھر کہیں بیٹھ کے پی جائے اکٹھے چائے
پھر کوئی شام کا پل ساتھ گزارا جائے
آ میرے ساتھ بیٹھ مرے ساتھ چائے پی
آ میرے ساتھ میرے دلائل پہ بات کر
پھر چائے میں بسکٹ کی طرح بھوکی سی یہ شام
کھا جائے گی سورج کو سمندر میں ڈبا کر
گرم موسم میں گرم چائے بھی
بد مزاجوں کا پیار لگتی ہے
چائے میں مت ملائیے شکر کہ ہے ضرر رساں
شامل مٹھاس واسطے اپنا لعاب کیجیے
ایک چائے کیا جان دیتی میں
شکریہ ایسے کہہ رہا تھا وہ
کبھی تو بیٹھ کے یاروں کے ساتھ چائے پی
کبھی تو بیٹھ کے فرصت سے دن گزارا کر
روز ہم چائے ساتھ پیتے تھے
بات آگے کبھی بڑھی ہی نہیں
شاعری چائے تری یاد چمکتے جگنو
بس یہی چار طلب روز مری شام کے ہیں
بھاپ اڑاڑ کے میری چائے سے
اس کا پیکر بناتی رہتی ہے
لو چائے میں بھی چائے کی پتی نہیں ڈالی
تم کو تو محبت کے سوا کچھ نہیں آتا
شام کی چائے کا وعدہ وہ ادھر بھول گئے
ہم ادھر صبح سے تیار ہوئے بیٹھے ہیں
نام میرا یاد کرکے چسکیوں کے بیچ میں
کیا ہوئی ہے چائے کے کپ میں ترے ہلچل کبھی
وہ چائے پی رہا تھا کسی دوسرے کے ساتھ
مجھ پر نگاہ پڑتے ہی کچھ جھینپ سا گیا
ہیں دسترس میں ابھی بھی طاہرؔ اٹھا کے اب اس کو پی بھی ڈالو
مشاہدوں میں ہی ہو گئی گر یہ ٹھنڈی چائے تو کیا کرو گے
چائے میں اس کے پستاں تھے
میرا بدن پانی میں تھا
چائے میرے ہاتھ سے گرنے والی تھی
اس نے اس انداز سے گھورا توبہ ہے
گرم چائے پی ہے تیری یاد کی
تشنہ لب ہوں شربت دیدار کا
چائے کے کپ میں ابلی
اخباروں کی سرخی دھوپ
میں نے چائے جو پیش کی تھی اسے
اک تکلف میں پڑ گیا تھا وہ
شب ڈھلی اٹھنے لگے ہوٹل سے لوگ
چائے کا یہ دور اس کے نام پر
چائے کے تلخ گھونٹ سے اٹھتا ہوا غبار
وہ انتظار شام وہ منظر کہاں گیا
اس کا خیال دل میں گھڑی دو گھڑی رہے
پھر اس کے بعد میز پہ چائے پڑی رہے
دھیان اک بیتے ملن کے دوار
لب چائے کی پیالی پر
کپ میں گرمی دکھا رہی تھی بہت
چائے ساسر میں ڈال دی میں نے