Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

امن پر اشعار

شاعری کا ایک اہم ترین

کام یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ بہت خاموشی سے ہمیں ایک بہتر انسان بننے کی راہ پر لگا دیتی ہے اور پھر دھیرے دھیرے ہم زندگی میں ہر طرح کی منفیت کو نکارنے لگتے ہیں۔ امن کے اس عنوان سے ہم آپ کے لیے کچھ ایسی ہی شاعری پیش کر رہے ہیں جو آپ کو ہر قسم کے خطرناک انسانی جذبات کی گرفت سے بچانے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ یہ شاعری ہم سب کے لیےبہتر انسان بننے اور اپنی انا کو ختم کرنے کا ایک سبق بھی ہے اور دنیا میں امن و شانتی قائم کرنے کی کوشش میں لگے لوگوں کے لیے ایک چھوٹی سی گائڈ بک بھی۔ آپ اسے پڑھیے اور اس میں موجود پیغام کو عام کیجیے۔

معصوم ہے معصوم بہت امن کی دیوی

قبضہ میں لیے خنجر خوں خار ابھی تک

عارف نقشبندی

امن کا قتل ہو گیا جب سے

شہر اب بد حواس رہتا ہے

صابر شاہ صابر

عجیب درد کا رشتہ ہے ساری دنیا میں

کہیں ہو جلتا مکاں اپنا گھر لگے ہے مجھے

ملک زادہ منظور احمد

ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں

میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے

جگر مراد آبادی

ہاں دل بے تاب چندے انتظار

امن و راحت کا ٹھکانہ اور ہے

اسماعیل میرٹھی

سبھی کے دیپ سندر ہیں ہمارے کیا تمہارے کیا

اجالا ہر طرف ہے اس کنارے اس کنارے کیا

حفیظ بنارسی

امن اور آشتی سے اس کو کیا

اس کا مقصد تو انتشار میں ہے

عزیز انصاری

امن تھا پیار تھا محبت تھا

رنگ تھا نور تھا نوا تھا فراق

حبیب جالب

یہ دنیا نفرتوں کے آخری اسٹیج پہ ہے

علاج اس کا محبت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے

چرن سنگھ بشر

مجھ میں تھوڑی سی جگہ بھی نہیں نفرت کے لیے

میں تو ہر وقت محبت سے بھرا رہتا ہوں

مرزا اطہر ضیا

رہے تذکرے امن کے آشتی کے

مگر بستیوں پر برستے رہے بم

انور شعور

ہم امن چاہتے ہیں مگر ظلم کے خلاف

گر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی

ساحر لدھیانوی

امن عالم کی خاطر

جنگ یگوں سے جاری ہے

اسلم حبیب

مل کے سب امن و چین سے رہئے

لعنتیں بھیجئے فسادوں پر

ہیرا لال فلک دہلوی

فضا یہ امن و اماں کی سدا رکھیں قائم

سنو یہ فرض تمہارا بھی ہے ہمارا بھی

نصرت مہدی

خدائے امن جو کہتا ہے خود کو

زمیں پر خود ہی مقتل لکھ رہا ہے

ظفر صہبائی

سات صندوقوں میں بھر کر دفن کر دو نفرتیں

آج انساں کو محبت کی ضرورت ہے بہت

بشیر بدر

امن کے سارے سپنے جھوٹے

سپنوں کی تعبیریں جھوٹی

بقا بلوچ

دھوپ کے سائے میں چپ سادھے ہوئے

کر رہے ہو امن کا اعلان کیا

عادل حیات

اپنے دیش میں گھر گھر امن ہے کہ جھگڑے ہیں

دیکھو روز ناموں کی سرخیاں بتائیں گی

بسمل نقشبندی

ایک تختی امن کے پیغام کی

ٹانگ دیجے اونچے میناروں کے بیچ

عزیز نبیل

سنا ہے امن پرستوں کا وہ علاقہ ہے

وہیں شکار کبوتر ہوا تو کیسے ہوا

فراغ روہوی

شہر میں امن و اماں ہو یہ ضروری ہے مگر

حاکم وقت کے ماتھے پہ لکھا ہی کچھ ہے

شمیم قاسمی

جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے

جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی

ساحر لدھیانوی

دشمنی جم کر کرو لیکن یہ گنجائش رہے

جب کبھی ہم دوست ہو جائیں تو شرمندہ نہ ہوں

بشیر بدر

پرواز میں تھا امن کا معصوم پرندہ

سنتے ہیں کہ بے چارہ شجر تک نہیں پہنچا

کرامت بخاری

اگر تمہاری انا ہی کا ہے سوال تو پھر

چلو میں ہاتھ بڑھاتا ہوں دوستی کے لیے

احمد فراز

بہ نام امن و اماں کون مارا جائے گا

نہ جانے آج یہاں کون مارا جائے گا

نسیم سحر

چلو امن و اماں ہے میکدے میں

وہیں کچھ پل ٹھہر کر دیکھتے ہیں

اختر شاہجہانپوری

امن کیفیؔ ہو نہیں سکتا کبھی

جب تلک ظلم و ستم موجود ہے

اقبال کیفی

امن پرچار تلک ٹھیک سہی لیکن امن

تم کو لگتا ہے کہ ہوگا نہیں ہونے والا

فصیح اللہ نقیب

امن ہر شخص کی ضرورت ہے

اس لئے امن سے محبت ہے

نامعلوم

اک شجر ایسا محبت کا لگایا جائے

جس کا ہمسائے کے آنگن میں بھی سایا جائے

ظفر زیدی

بادلوں نے آج برسایا لہو

امن کا ہر فاختہ رونے لگا

ظفر حمیدی

جنگ کا شور بھی کچھ دیر تو تھم سکتا ہے

پھر سے اک امن کی افواہ اڑا دی جائے

شاہد کمال

امن اور تیرے عہد میں ظالم

کس طرح خاک رہ گزر بیٹھے

قلق میرٹھی

حفیظؔ اپنی بولی محبت کی بولی

نہ اردو نہ ہندی نہ ہندوستانی

حفیظ جالندھری

سب سے پر امن واقعہ یہ ہے

آدمی آدمی کو بھول گیا

جون ایلیا

کتنا پر امن ہے ماحول فسادات کے بعد

شام کے وقت نکلتا نہیں باہر کوئی

عشرت دھولپور

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے