Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Asad Badayuni's Photo'

اسعد بدایونی

1958 - 2003 | علی گڑہ, انڈیا

ممتاز ما بعد جدید شاعر، رسالہ’دائرے‘ کے مدیر

ممتاز ما بعد جدید شاعر، رسالہ’دائرے‘ کے مدیر

اسعد بدایونی کے اشعار

13.5K
Favorite

باعتبار

دیکھنے کے لیے سارا عالم بھی کم

چاہنے کے لیے ایک چہرا بہت

سب اک چراغ کے پروانے ہونا چاہتے ہیں

عجیب لوگ ہیں دیوانے ہونا چاہتے ہیں

میری رسوائی کے اسباب ہیں میرے اندر

آدمی ہوں سو بہت خواب ہیں میرے اندر

بچھڑ کے تجھ سے کسی دوسرے پہ مرنا ہے

یہ تجربہ بھی اسی زندگی میں کرنا ہے

گاؤں کی آنکھ سے بستی کی نظر سے دیکھا

ایک ہی رنگ ہے دنیا کو جدھر سے دیکھا

چشم انکار میں اقرار بھی ہو سکتا تھا

چھیڑنے کو مجھے پھر میری انا پوچھتی ہے

جم گئی دھول ملاقات کے آئینوں پر

مجھ کو اس کی نہ اسے میری ضرورت کوئی

جسے پڑھتے تو یاد آتا تھا تیرا پھول سا چہرہ

ہماری سب کتابوں میں اک ایسا باب رہتا تھا

وہ ساری باتیں میں احباب ہی سے کہتا ہوں

مجھے حریف کو جو کچھ سنانا ہوتا ہے

غیروں کو کیا پڑی ہے کہ رسوا کریں مجھے

ان سازشوں میں ہاتھ کسی آشنا کا ہے

بہت سے لوگوں کو میں بھی غلط سمجھتا ہوں

بہت سے لوگ مجھے بھی برا بتاتے ہیں

پھولوں کی تازگی ہی نہیں دیکھنے کی چیز

کانٹوں کی سمت بھی تو نگاہیں اٹھا کے دیکھ

کبھی موج خواب میں کھو گیا کبھی تھک کے ریت پہ سو گیا

یوں ہی عمر ساری گزار دی فقط آرزوئے وصال میں

جسے نہ میری اداسی کا کچھ خیال آیا

میں اس کے حسن پہ اک روز خاک ڈال آیا

لیتا نہیں کسی کا پس مرگ کوئی نام

دنیا کو دیکھنا ہے تو دنیا سے جا کے دیکھ

وہاں بھی مجھ کو خدا سر بلند رکھتا ہے

جہاں سروں کو جھکائے زمانہ ہوتا ہے

آتے ہیں برگ و بار درختوں کے جسم پر

تم بھی اٹھاؤ ہاتھ کہ موسم دعا کا ہے

ہوا درختوں سے کہتی ہے دکھ کے لہجے میں

ابھی مجھے کئی صحراؤں سے گزرنا ہے

جب تلک آزاد تھے ہر اک مسافت تھی وبال

جب پڑی زنجیر پیروں میں سفر اچھے لگے

چمن وہی کہ جہاں پر لبوں کے پھول کھلیں

بدن وہی کہ جہاں رات ہو گوارا بھی

محبتیں بھی اسی آدمی کا حصہ تھیں

مگر یہ بات پرانے زمانے والی ہے

پرند کیوں مری شاخوں سے خوف کھاتے ہیں

کہ اک درخت ہوں اور سایہ دار میں بھی ہوں

پرانے گھر کی شکستہ چھتوں سے اکتا کر

نئے مکان کا نقشہ بناتا رہتا ہوں

سخن وری کا بہانہ بناتا رہتا ہوں

ترا فسانہ تجھی کو سناتا رہتا ہوں

پرند پیڑ سے پرواز کرتے جاتے ہیں

کہ بستیوں کا مقدر بدلتا جاتا ہے

کوئی ہم دم نہیں دنیا میں لیکن

جسے دیکھو وہی ہم دم لگے ہے

یہ طائروں کی قطاریں کدھر کو جاتی ہیں

نہ کوئی دام بچھا ہے کہیں نہ دانہ ہے

شاخ سے ٹوٹ کے پتے نے یہ دل میں سوچا

کون اس طرح بھلا مائل ہجرت ہوگا

ہوا کے اپنے علاقے ہوس کے اپنے مقام

یہ کب کسی کو ظفر یاب دیکھ سکتے ہیں

مرے بدن پہ زمانوں کی زنگ ہے لیکن

میں کیسے دیکھوں شکستہ ہے آئنہ میرا

تکلفات کی نظموں کا سلسلہ ہے سوا

تعلقات اب افسانے ہونا چاہتے ہیں

یہاں نہ پیٹ ہی اس شاعری سے بھرتا ہے

یہاں نہ قوم ہی لوح و قلم سے جاگتی ہے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے