پروانہ پر اشعار
پان ہندوستانی تہذیب
کا ایک اہم حصہ رہا ہے ۔ اس کے کھانے اور کھلانے سے سماجی زندگی میں میل جول اور یگانگت کی قدریں وابستہ ہیں لیکن شاعروں نے پان کو اور بھی کئی جہتوں سے برتا ہے ۔ پان کی لالی اور اس کی سرخی ایک سطح پر عاشق کے خون کا استعارہ بھی ہے ۔ معشوق کا منھ جو پان سے لال رہتا ہے وہ دراصل عاشق کے خون سے رنگین ہے ۔ شاعرانہ تخیل کے پیدا کئے ہوئے ان مضامین کا لطف لیجئے ۔
پروانہ کی تپش نے خدا جانے کان میں
کیا کہہ دیا کہ شمع کے سر سے دھواں اٹھا
-
موضوع : شمع
پروانوں کا تو حشر جو ہونا تھا ہو چکا
گزری ہے رات شمع پہ کیا دیکھتے چلیں
جانے کیا محفل پروانہ میں دیکھا اس نے
پھر زباں کھل نہ سکی شمع جو خاموش ہوئی
-
موضوعات : شمعاور 1 مزید
شمع پر خون کا الزام ہو ثابت کیوں کر
پھونک دی لاش بھی کمبخت نے پروانے کی
ہوتی کہاں ہے دل سے جدا دل کی آرزو
جاتا کہاں ہے شمع کو پروانہ چھوڑ کر
-
موضوعات : آرزواور 2 مزید
مت کرو شمع کوں بد نام جلاتی وہ نہیں
آپ سیں شوق پتنگوں کو ہے جل جانے کا
-
موضوع : شمع
یہ اپنے دل کی لگی کو بجھانے آتے ہیں
پرائی آگ میں جلتے نہیں ہیں پروانے
تو کہیں ہو دل دیوانہ وہاں پہنچے گا
شمع ہوگی جہاں پروانہ وہاں پہنچے گا
خاک کر دیوے جلا کر پہلے پھر ٹسوے بہائے
شمع مجلس میں بڑی دل سوز پروانے کی ہے
-
موضوع : شمع
خود ہی پروانے جل گئے ورنہ
شمع جلتی ہے روشنی کے لیے
سب اک چراغ کے پروانے ہونا چاہتے ہیں
عجیب لوگ ہیں دیوانے ہونا چاہتے ہیں
-
موضوعات : دیوانگیاور 1 مزید
مثل پروانہ فدا ہر ایک کا دل ہو گیا
یار جس محفل میں بیٹھا شمع محفل ہو گیا
تاریکی میں ہوتا ہے اسے وصل میسر
پروانہ کہاں جائے شبستاں سے نکل کر
خود بھی جلتی ہے اگر اس کو جلاتی ہے یہ
کم کسی طرح نہیں شمع بھی پروانے سے
یوں تو جل بجھنے میں دونوں ہیں برابر لیکن
وہ کہاں شمع میں جو آگ ہے پروانے میں
موجد جو نور کا ہے وہ میرا چراغ ہے
پروانہ ہوں میں انجمن کائنات کا
-
موضوع : چراغ
عشق میں نسبت نہیں بلبل کو پروانے کے ساتھ
وصل میں وہ جان دے یہ ہجر میں جیتی رہے
پروانے آ ہی جائیں گے کھنچ کر بہ جبر عشق
محفل میں صرف شمع جلانے کی دیر ہے