Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

امداد علی بحر

1810 - 1878 | لکھنؤ, انڈیا

امداد علی بحر کے اشعار

4.5K
Favorite

باعتبار

دیکھیے ترک ادب کی کیا ملی تعزیر کل

پیٹھ ہے سوئے حرم منہ ہے سوئے بت خانہ آج

رعایت چاہیے ایسی کہ زیبائی ہو معنی کی

عروس شعر کا اے بحرؔ زیور ہو تو ایسا ہو

آئے بھی تو کھائے نہ گلوری نہ ملا عطر

روکی مری دعوت مجھے مہماں سے گلا ہے

تکیہ اگر نصیب ہو زانوئے یار کا

میں ایسی نیند سوؤں کہ ثابت ہو مر گیا

کیا ہے مجھے دیتے ہو گلوری

چونے میں کہیں نہ سنکھیا ہو

وہ کوچہ شعر و سخن کا ہے تنگ و تار اے بحرؔ

کہ سوجھتے نہیں معنی بڑے ذہینوں کو

مرے قتل پر تم نے بیڑا اٹھایا

مرے ہاتھ کا پان کھایا تو ہوتا

عاشق سے ناک بھوں نہ چڑھا او کتاب رو

ہم درس عشق میں یہ الف بھی پڑھے نہیں

نہیں جی چاہتا ملنے کو سبک وضعوں سے

کیا کریں ہم جو مزاج اپنا گرانی مانگے

ظالم ہماری آج کی یہ بات یاد رکھ

اتنا بھی دل جلوں کا ستانا بھلا نہیں

مختار ہیں وہ لکھیں نہ لکھیں جواب خط

صاحب کو روز اپنا عریضہ رپورٹ ہے

یار کو دیکھتے ہی مر گئے اے بحرؔ افسوس

خاک میری کوئی آنکھوں میں قضا کی جھونکے

مرے بغیر نہ اک دم اسے قرار آتا

ذرا بھی ضبط جو مجھ بے قرار میں ہوتا

دکھایا اس نے بن ٹھن کر وہ جلوہ اپنی صورت کا

کہ پانی پھر گیا آئینے پر دریاے حیرت کا

چوٹی گندھوائی ہوئی یار نے کھلوا ڈالی

رحم آیا کوئی محبوس رسن یاد آیا

زاہد سناؤں وصف جو اپنی شراب کے

پڑھنے لگیں درود فرشتے ثواب کے

رونا بنائے خانہ خرابی ہے مثل شمع

ٹپکے جو سقف چشم ہو تو قصر تن خراب

کوئی پھل پائے گا کیا تخم محبت بو کر

اس امر بیل میں تو برگ و ثمر کچھ بھی نہیں

اپنی انگیا کی کٹوری نہ دکھاؤ مجھ کو

کہیں ٹھرے کی ہوس میں نہ یہ مے خوار بندھے

تیغ عرفاں سے روح بسمل ہے

حال پر اپنے حال آتا ہے

خوش رہو یار اگر ہم سے ہو بیزار بہت

دل اگر اپنا سلامت ہے تو دل دار بہت

پوچھے رندوں سے کوئی ان مفتیوں کا جھوٹ سچ

دو دلیلوں سے یہ کر لیتے ہیں دعویٰ جھوٹ سچ

کسی گل کو جو اپنا طرۂ دستار سمجھے ہم

تو برسوں ٹوکرا سر پر اٹھایا سرگرانی کا

کیا کیا نہ مجھ سے سنگ دلی دلبروں نے کی

پتھر پڑیں سمجھ پہ نہ سمجھا کسی طرح

مجھی پر قطع ہوئی ہے قبائے دل سوزی

ہوا سے آ کے چھپے میرے پیرہن میں چراغ

قتل پر بیڑا اٹھا کر تیغ کیا باندھوگے تم

لو خبر اپنی دہن گم ہے کمر ملتی نہیں

پیار کی آنکھ سے دشمن کو بھی جو دیکھتے ہیں

ہم نے ایسے بھی ہیں اللہ کے پیارے دیکھے

آنکھیں نہ جینے دیں گی تری بے وفا مجھے

کیوں کھڑکیوں سے جھانک رہی ہے قضا مجھے

زلف دو تا دو‌‌ راہۂ اسلام و کفر ہے

زاہد ادھر خراب ادھر برہمن خراب

خوب چلتی ہے ناؤ کاغذ کی

گھر میں قاضی کے مال آتا ہے

میں ہاتھ جوڑتا ہوں بڑی دیر سے حضور

لگ جائیے گلے سے اب انکار ہو چکا

واعظو ہم رند کیوں کر کابل جنت نہیں

کیا گنہ گاروں کو میراث پدر ملتی نہیں

قاضی کو جو رند کچھ چٹا دیں

مسجد کی بغل میں مے کدہ ہو

دنیا میں بحرؔ کون عبادت گزار ہے

صوم و صلٰوۃ داخل رسم و رواج ہے

کانٹوں پہ مثل قیس کہاں تک رواں دواں

لیلاے‌ٔ جاں ہے جسم کی محمل سے دل اچاٹ

میرا لہو چٹائے گا جب تک نہ تیغ کو

قاتل کو دہنے ہاتھ سے کھانا حرام ہے

غیر پر کیوں نگاہ کرتے ہو

مجھ کو اس تیر کا نشانہ کرو

بے طرح دل میں بھرا رہتا ہے زلفوں کا دھواں

دم نکل جائے کسی روز نہ گھٹ کر اپنا

کمال طالب دنیائے دوں ہے پیر حرم

خدا کے گھر میں ہے لیکن خدا سے باہر ہے

جوتا نیا پہن کے وہ پنجوں کے بل چلے

کپڑے بدل کے جامے سے باہر نکل چلے

چلا رہا ہوں قلقل مینائے مے کی شکل

دے جام کے لبوں سے مجھے ساقیا جواب

ایک بوسہ مری تنخواہ ملے نہ ملے

آرزو ہے کہ نہ قدموں سے یہ نوکر چھوٹے

ابر بہار اب بھی جچتا نہیں نظر میں

کچھ آنسوؤں کے قطرے اب بھی ہیں چشم تر میں

ہوگا ضرور ایک نہ اک دن مباحثہ

رضواں سے اور کوئے صنم کے مقیم سے

کب طالب راحت ہوئے زخمیٔ محبت

مرہم کی جو حاجت ہوئی تیزاب بنایا

نہ نکلے گا دل اس کے گیسو میں پھنس کر

یہ کالا کبھی من اگلتا نہیں ہے

ہے نگینہ ہر ایک عضو بدن

تم کو کیا احتیاج زیور کی

واعظ کا جھوٹ بولنا تاثیر کر گیا

دم میں نمازیوں کی ہوئی انجمن خراب

بھلا ہوا کہ نہ ہاتھ آیا جامۂ پر زر

گزی کے کپڑے بدلتے تو ہم بدل جاتے

میرا دل کس نے لیا نام بتاؤں کس کا

میں ہوں یا آپ ہیں گھر میں کوئی آیا نہ گیا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے