Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نظیر باقری کے اشعار

3.6K
Favorite

باعتبار

کھڑا ہوں آج بھی روٹی کے چار حرف لیے

سوال یہ ہے کتابوں نے کیا دیا مجھ کو

اس لیے چل نہ سکا کوئی بھی خنجر مجھ پر

میری شہ رگ پہ مری ماں کی دعا رکھی تھی

زخم کتنے تری چاہت سے ملے ہیں مجھ کو

سوچتا ہوں کہ کہوں تجھ سے مگر جانے دے

اپنی آنکھوں کے سمندر میں اتر جانے دے

تیرا مجرم ہوں مجھے ڈوب کے مر جانے دے

کسی نے ہاتھ بڑھایا ہے دوستی کے لیے

پھر ایک بار خدا اعتبار دے مجھ کو

خوب گئے پردیس کہ اپنے دیوار و در بھول گئے

شیش محل نے ایسا گھیرا مٹی کے گھر بھول گئے

آگ دنیا کی لگائی ہوئی بجھ جائے گی

کوئی آنسو مرے دامن پہ بکھر جانے دے

تا عمر پھر نہ ہوگی اجالوں کی آرزو

تو بھی کسی چراغ کی لو سے لپٹ کے دیکھ

ساتھ چلنا ہے تو پھر چھوڑ دے ساری دنیا

چل نہ پائے تو مجھے لوٹ کے گھر جانے دے

میں ایک ذرہ بلندی کو چھونے نکلا تھا

ہوا نے تھم کے زمیں پر گرا دیا مجھ کو

میں نے دنیا چھوڑ دی لیکن مرا مردہ بدن

ایک الجھن کی طرح قاتل کی نظروں میں رہا

آ گیا یاد انہیں اپنے کسی غم کا حساب

ہنسنے والوں نے مرے اشک جو گن کے دیکھے

یاد نہیں کیا کیا دیکھا تھا سارے منظر بھول گئے

اس کی گلیوں سے جب لوٹے اپنا بھی گھر بھول گئے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے