Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نظیر باقری کے اشعار

باعتبار

خوب گئے پردیس کہ اپنے دیوار و در بھول گئے

شیش محل نے ایسا گھیرا مٹی کے گھر بھول گئے

کھڑا ہوں آج بھی روٹی کے چار حرف لیے

سوال یہ ہے کتابوں نے کیا دیا مجھ کو

زخم کتنے تری چاہت سے ملے ہیں مجھ کو

سوچتا ہوں کہ کہوں تجھ سے مگر جانے دے

اس لیے چل نہ سکا کوئی بھی خنجر مجھ پر

میری شہ رگ پہ مری ماں کی دعا رکھی تھی

آگ دنیا کی لگائی ہوئی بجھ جائے گی

کوئی آنسو مرے دامن پہ بکھر جانے دے

ساتھ چلنا ہے تو پھر چھوڑ دے ساری دنیا

چل نہ پائے تو مجھے لوٹ کے گھر جانے دے

میں ایک ذرہ بلندی کو چھونے نکلا تھا

ہوا نے تھم کے زمیں پر گرا دیا مجھ کو

اپنی آنکھوں کے سمندر میں اتر جانے دے

تیرا مجرم ہوں مجھے ڈوب کے مر جانے دے

کسی نے ہاتھ بڑھایا ہے دوستی کے لیے

پھر ایک بار خدا اعتبار دے مجھ کو

یاد نہیں کیا کیا دیکھا تھا سارے منظر بھول گئے

اس کی گلیوں سے جب لوٹے اپنا بھی گھر بھول گئے

میں نے دنیا چھوڑ دی لیکن مرا مردہ بدن

ایک الجھن کی طرح قاتل کی نظروں میں رہا

تا عمر پھر نہ ہوگی اجالوں کی آرزو

تو بھی کسی چراغ کی لو سے لپٹ کے دیکھ

آ گیا یاد انہیں اپنے کسی غم کا حساب

ہنسنے والوں نے مرے اشک جو گن کے دیکھے

Recitation

بولیے