Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گرمی پر اشعار

شاعری میں کوئی لفظ کسی

ایک خاص تصورسےبندھ کرنہیں رہتا۔ ہرتخلیقی ذہن اپنے لفظوں اوراپنے اظہاری وسیلوں کا ایک الگ تناظراورسیاق رکھتا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ دھوپ اوردوپہرکے لفظ کتنے متنوع معنویاتی زاویے رکھتے ہیں۔ یہ زندگی کی سختی اورشدت کی علامت بھی ہیں اوراس کےبرعکس بھی۔

پڑ جائیں مرے جسم پہ لاکھ آبلہ اکبرؔ

پڑھ کر جو کوئی پھونک دے اپریل مئی جون

اکبر الہ آبادی

گرمی سی یہ گرمی ہے

مانگ رہے ہیں لوگ پناہ

عبید صدیقی

سورج سر پہ آ پہنچا

گرمی ہے یا روز جزا

ناصر کاظمی

گرمی سے مضطرب تھا زمانہ زمین پر

بھن جاتا تھا جو گرتا تھا دانا زمین پر

میر انیس

گرمیوں بھر مرے کمرے میں پڑا رہتا ہے

دیکھ کر رخ مجھے سورج کا یہ گھر لینا تھا

غلام مرتضی راہی

گرمی بہت ہے آج کھلا رکھ مکان کو

اس کی گلی سے رات کو پروائی آئے گی

خلیل رامپوری

گرمی جو آئی گھر کا ہوا دان کھل گیا

ساحل پہ جب گیا تو ہر انسان کھل گیا

خالد عرفان

یہ دھوپ تو ہر رخ سے پریشاں کرے گی

کیوں ڈھونڈ رہے ہو کسی دیوار کا سایہ

اطہر نفیس

تو جون کی گرمی سے نہ گھبرا کہ جہاں میں

یہ لو تو ہمیشہ نہ رہی ہے نہ رہے گی

شریف کنجاہی

شدید گرمی میں کیسے نکلے وہ پھول چہرہ

سو اپنے رستے میں دھوپ دیوار ہو رہی ہے

شکیل جمالی

شہر کیا دیکھیں کہ ہر منظر میں جالے پڑ گئے

ایسی گرمی ہے کہ پیلے پھول کالے پڑ گئے

راحت اندوری

بند آنکھیں کروں اور خواب تمہارے دیکھوں

تپتی گرمی میں بھی وادی کے نظارے دیکھوں

صاحبہ شہریار

گرمی نے کچھ آگ اور بھی سینہ میں لگائی

ہر طور غرض آپ سے ملنا ہی کم اچھا

انشا اللہ خاں انشا

کیوں تری تھوڑی سی گرمی سیں پگھل جاوے ہے جاں

کیا تو نیں سمجھا ہے عاشق اس قدر ہے موم کا

آبرو شاہ مبارک

پگھلتے دیکھ کے سورج کی گرمی

ابھی معصوم کرنیں رو گئی ہیں

جالب نعمانی

پھر وہی لمبی دوپہریں ہیں پھر وہی دل کی حالت ہے

باہر کتنا سناٹا ہے اندر کتنی وحشت ہے

اعتبار ساجد

گرمی میں تیرے کوچہ نشینوں کے واسطے

پنکھے ہیں قدسیوں کے پروں کے بہشت میں

منیر  شکوہ آبادی

یہ صبح کی سفیدیاں یہ دوپہر کی زردیاں

اب آئینے میں دیکھتا ہوں میں کہاں چلا گیا

ناصر کاظمی

سارا دن تپتے سورج کی گرمی میں جلتے رہے

ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا پھر چلی سو رہو سو رہو

ناصر کاظمی

اتارو بدن سے یہ موٹے لباس

نہیں دیکھتیں گرمیاں آ گئیں

محمد اعظم

دھوپ کی گرمی سے اینٹیں پک گئیں پھل پک گئے

اک ہمارا جسم تھا اختر جو کچا رہ گیا

اختر ہوشیارپوری

قیامت میں بڑی گرمی پڑے گی حضرت زاہد

یہیں سے بادۂ گل رنگ میں دامن کو تر کر لو

مضطر خیرآبادی

دوپہر کی دھوپ میں میرے بلانے کے لیے

وہ ترا کوٹھے پہ ننگے پاؤں آنا یاد ہے

حسرتؔ موہانی

تعلقات کی گرمی نہ اعتبار کی دھوپ

جھلس رہی ہے زمانے کو انتشار کی دھوپ

علی عباس امید

گرمی لگی تو خود سے الگ ہو کے سو گئے

سردی لگی تو خود کو دوبارہ پہن لیا

بیدل حیدری

آتے ہی جو تم میرے گلے لگ گئے واللہ

اس وقت تو اس گرمی نے سب مات کی گرمی

نظیر اکبرآبادی

ستم گرمیٔ صحرا مجھے معلوم نہ تھا

خشک ہو جائے گا دریا مجھے معلوم نہ تھا

کمال جعفری

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے