توبہ پر اشعار
توبہ خمریات کی شاعری
کا ایک بنیادی لفظ ہے اس کے استعمال سے شاعروں نے نئے نئے مضامین پیدا کئے ہیں ۔ خاص بات یہ ہے کہ توبہ کے موضوع کی خشکی ایک بڑی شوخی میں تبدیل ہوگئی ہے ۔ شراب پینے والا کردار ناصح کے کہنے پرشراب پینے سے توبہ کرتا ہے لیکن کبھی موسم کی خوشگواری اورکبھی ابلتی ہوئی شراب کی شدت کے سامنے یہ توبہ ٹوٹ جاتی ہے ۔ ہمارا یہ انتخاب پڑھئے اوران شوخیوں سے لطف لیجئے ۔
ہائے سیمابؔ اس کی مجبوری
جس نے کی ہو شباب میں توبہ
پینے سے کر چکا تھا میں توبہ مگر جلیلؔ
بادل کا رنگ دیکھ کے نیت بدل گئی
ہم سے مے کش جو توبہ کر بیٹھیں
پھر یہ کار ثواب کون کرے
ہماری کشتیٔ توبہ کا یہ ہوا انجام
بہار آتے ہی غرق شراب ہو کے رہی
-
موضوع : شراب
مجھے توبہ کا پورا اجر ملتا ہے اسی ساعت
کوئی زہرہ جبیں پینے پہ جب مجبور کرتا ہے
آپ کے ہوتے کسی اور کو چاہوں توبہ
کس طرف دھیان ہے کیا آپ یہ فرماتے ہیں
ساقیا دل میں جو توبہ کا خیال آتا ہے
دور سے آنکھ دکھاتا ہے ترا جام مجھے
اتنی پی ہے کہ بعد توبہ بھی
بے پیے بے خودی سی رہتی ہے
-
موضوعات : بے خودیاور 2 مزید
برسات کے آتے ہی توبہ نہ رہی باقی
بادل جو نظر آئے بدلی میری نیت بھی
-
موضوع : بارش
اے شیخ مرتے مرتے بچے ہیں پیے بغیر
عاصی ہوں اب جو توبہ کریں مے کشی سے ہم
بات ساقی کی نہ ٹالی جائے گی
کر کے توبہ توڑ ڈالی جائے گی
-
موضوعات : ساقیاور 1 مزید
توبہ کھڑی ہے در پہ جو فریاد کے لئے
یہ مے کدہ بھی کیا کسی قاضی کا گھر ہوا
کھنک جاتے ہیں جب ساغر تو پہروں کان بجتے ہیں
ارے توبہ بڑی توبہ شکن آواز ہوتی ہے
وہ کون ہیں جنہیں توبہ کی مل گئی فرصت
ہمیں گناہ بھی کرنے کو زندگی کم ہے
شرکت گناہ میں بھی رہے کچھ ثواب کی
توبہ کے ساتھ توڑیئے بوتل شراب کی
توبہ کی رندوں میں گنجائش کہاں
جب یہ آئے گی نکالی جائے گی
-
موضوع : رند
فتویٰ دیا ہے مفتیٔ ابر بہار نے
توبہ کا خون بادہ کشوں کو حلال ہے
دختر رز نے دیے چھینٹے کچھ ایسے ساقیا
پانی پانی ہو گئی توبہ ہر اک مے خوار کی
ہم نے برسات کے موسم میں جو چاہی توبہ
ابر اس زور سے گرجا کہ الٰہی توبہ
ان کے رخسار پہ ڈھلکے ہوئے آنسو توبہ
میں نے شبنم کو بھی شعلوں پہ مچلتے دیکھا
ترک مے ہی سمجھ اسے ناصح
اتنی پی ہے کہ پی نہیں جاتی
شکست توبہ کی تمہید ہے تری توبہ
زباں پہ توبہ مبارکؔ نگاہ ساغر پر
مری شراب کی توبہ پہ جا نہ اے واعظ
نشے کی بات نہیں اعتبار کے قابل
میں تو جب مانوں مری توبہ کے بعد
کر کے مجبور پلا دے ساقی
جام ہے توبہ شکن توبہ مری جام شکن
سامنے ڈھیر ہیں ٹوٹے ہوئے پیمانوں کے
گزرے ہیں میکدے سے جو توبہ کے بعد ہم
کچھ دور عادتاً بھی قدم ڈگمگائے ہیں
-
موضوع : مے کدہ