مصحفی غلام ہمدانی کے اشعار
یار روتے رہے سب روح نے پرواز کیا
کیا مسافر کے تئیں شدت باراں روکے
گر یہ آنسو ہیں تو لاکھ آویں گے دریا جوش میں
گر یہ آنکھیں ہیں تو دکھلاویں گی طوفاں سیکڑوں
اب شیشۂ ساعت کی طرح خشکی کے باعث
گریہ کی جگہ ریت نکلتی ہے گلو سے
تو ہمدموں سے جدا رہ کہ ٹوٹ جاتا ہے
حباب کے جو قریں دوسرا حباب آیا
کچھ اس قدر نہیں سفر ہستی و عدم
گر پانو اٹھائیے تو یہ عرصہ ہے دو قدم
سودا ہے یہ کس زلف کا اس کو جو ہمیشہ
دیوانہ ترا پھینکے ہے زنجیر ہوا پر
چاک کرتا ہے ابھی جامۂ عریانی کو
یار کو خوش نہیں آتی مری رسوائی حیف
جس وقت کہ کوٹھے پر وہ ماہ تمام آوے
کیا دور ہے گر اس کو سورج کا سلام آوے
کسی کے عقد میں رہتی نہیں ہے لولیٔ دہر
یہ قحبہ روز ازل سے ہے کچھ طلاق نصیب
کل سوئے غیر اس نے کئی بار کی نگاہ
لاکھوں کے بیچ چھپتی نہیں پیار کی نگاہ
میں نے کیا اور نگہ سے ترے رخ کو دیکھا
آئینہ بیچ میں کس واسطے دیوار ہے آج
یارب کبھی وہ دن ہو کہ خلوت میں وہ صنم
کھلوائے اپنے بند قبا میرے ہاتھ سے
سنبل کو پریشان کیا باد صبا نے
جب باغ میں باتیں تری زلفوں کی چلائیں
گلشن میں ہوا سے جو کھلا یار کا سینہ
حسرت سے گیا پھٹ گل و گلزار کا سینہ
ہوئی پیری میں اس گھر کی سی حالت خانۂ تن کی
در و دیوار گر کر جس مکاں کا اٹھ نہیں سکتا
خواب آرام میں سوتا تھا وہ گل قہر ہوا
اے نسیم سحری کس کو جگایا تو نے
غزل اے مصحفیؔ یہ میرؔ کی ہے
تمہاری میرزائی ہو چکی بس
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
یہ کب خیال میں لاتے ہیں تاج شاہی کو
دماغ عرش پہ ہے تیرے کم دماغوں کا
رانجھا یہی کہتا تھا ادھر دیکھیو مجنوں
لیلیٰ کی ملامت ہے بہت ہیر میں میری
اس شاہد نہاں کا کشتہ ہوں میں کہ جس نے
کھینچی ہے درمیاں میں دیوار زندگی سے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
روز وصال جس کو کہتی ہے خلق وہ ہی
مذہب میں عاشقوں کے روز وفات بھی ہے
مقتل یار میں ٹک لے تو چلو اے یارو
واں ہمیں سر سے گزر جانے کا آہنگ ہے آج
اتنا گیا ہوں دور میں خود سے کہ دم بدم
کرنی پڑے ہے اپنی بھی اب التجا مجھے
ڈھے جانے کا کچھ گھر کے مجھے غم نہیں اتنا
اس خانہ خرابی نے ہوا دار تو رکھا
مہندی کے دھوکے مت رہ ظالم نگاہ کر تو
خوں میرا دست و پا سے تیرے لپٹ رہا ہے
اہل نصیحت جتنے ہیں ہاں ان کو سمجھا دیں یہ لوگ
میں تو ہوں سمجھا سمجھایا مجھ کو کیا سمجھاتے ہیں
بام فلک پہ گر وہ اڑاتا نہیں پتنگ
خورشید و ماہ ڈور کے پھر کس کی گولے ہیں
گو بھول گیا ہوں میں تجھے تو بھی ترا رنگ
جھلکے ہے مرے دیدۂ حیران میں کتنا
داغ پیشانیٔ زاہد نہ گیا جیتے جی
ساتھ لایا تھا یہ کیا ملک بقا سے دھبا
مصحفیؔ کیونکے چھپے ان سے مرا درد نہاں
یار تو بات کے انداز سے پا جاتے ہیں
جی میں ہے اتنے بوسے لیجے کہ آج
مہر اس کے وہاں سے اٹھ جاوے
قاصد کو اس نے جاتے ہی رخصت کیا تھا لیک
بد ذات ماندگی کے بہانے سے رہ گیا
نے ہاتھ مرا ہاتھ ہے نے جیب مری جیب
کیا دست و گریباں کو کہوں دست و گریباں
دیکھنا کم نگہی کیجیو مت اے ساقی
بہ جز عشاق ہے مے سب کو برابر پہنچے
شاید کہ کسی اور سے تھا وصل کا وعدہ
معلوم ہوا یہ تری بے زاریٔ شب سے
رکھتا ہے قدم ناز سے جس دم تو زمیں پر
کہتے ہیں فرشتے تجھے جے عرش بریں پر
ہم سبک روح اسیروں کے لیے لازم ہے
قفس گل کو کرے باد بہاری تیار
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
سلطنت اور ہی معنے رکھتی ہے
یوں تو سر پر خروس کے بھی ہے تاج
سامنے اس کے لگوں رونے تو جھنجھلا کے کہے
یاں سے لے جائیے یہ دیدۂ تر اور کہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
میں نے کس چشم کے افسانے کو آغاز کیا
جس کو سنتے ہی مرے خواب نے پرواز کیا
کوچۂ زلف میں پھرتا ہوں بھٹکتا کب کا
شب تاریک ہے اور ملتی نہیں راہ کہیں
قناعت اس کی نکلتی ہے واژگونی میں
گدا ہے بحر اگر کاسۂ حباب پھرے
اور سرگرم کیا تیری کشش نے مجھ کو
اتنا میں یار ہوا جتنا وہ بیگانہ ہوا
تو چھوڑ اب تو اسیر قفس کو اے صیاد
کلی چٹکنے لگی موسم گلاب آیا
اے فلک تجھ کو قسم ہے مری اس کو نہ بجھا
کہ غریبوں کو چراغ شب تاریک ہے دل
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کیسا یہ دن ہے جو نہیں لاتا ہے رو بہ شام
کیسی یہ شب ہے جس کی سحر نا پدید ہے
حربہ ہے عاشقوں کا فقط آہ پیچ دار
درویش لوگ رکھتے ہیں جیسے ہرن کی شاخ
ہاتھوں سے اس کے شیشۂ دل چور ہے مرا
یارب کیے کی اپنے سزا پائے محتسب
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
میں کیا جانوں قلق کیا چیز ہے پر اتنا جانوں ہوں
ملے ہے دل کو پہلو میں مرے شام و سحر کوئی
اٹھا گیا فلک پہ گرا خاک میں ملا
آخر ہوئی یہ شکل ہمارے غبار کی