میر تقی میر پر اشعار
اس عنوان کے تحت ہم نے
ان شعروں کو جمع کیا ہے جو میر تقی میر جیسے عظیم شاعر کو موضوع بناتے ہیں ۔ میر کے بعد کے تقریبا تمام بڑے شعرا نے میر کی استادی اور ان کی تخلیقی مہارت کا اعتراف کیا ۔ آپ ان شعروں سے گزرتے ہوئے دیکھیں گے کہ کس طرح میر اپنے بعد کے شعرا کے ذہن پر چھائے رہے اور کن کن طریقوں سے اپنے ہم پیشہ لوگوں سے داد وصول کرتے رہے ۔
ریختے کے تمہیں استاد نہیں ہو غالبؔ
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا
-
موضوع : ریختہ
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
شاگرد ہیں ہم میرؔ سے استاد کے راسخؔ
استادوں کا استاد ہے استاد ہمارا
میرے رونے کی حقیقت جس میں تھی
ایک مدت تک وہ کاغذ نم رہا
تشریح
میر کی شاعری تخیل کے عروج کی شاعری ہے۔ سادہ سے الفاظ میں آفاقی مضامین کو بیان کرنا میر کی شان ہے۔
میر نے زندگی بھر غم کو محسوس کیا غم کو برتا اور اس کو اپنی شاعری کے کینوس پر ابھارا۔ اس رنگا رنگی نے ان کے لہجے کو منفرد اور ان کو خدائے سخن بنا دیا۔
اس شعر میں شاعر انتہائی آسان لفظوں میں اپنے غم کا اظہار کرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے اس کی زندگی غم اور درد میں بسر ہوئی ہے۔ پریشانیوں اور مصیبتوں میں گزری ہے۔ اس حد تک غموں میں گزری ہے کہ اپنے اوپر گزری ہوئی پریشانیوں کو جب اس نے کاغذ پر لکھا اور عین ممکن ہے کہ یہ کاغذ ایک خط کی شکل میں ہو جو اس نے اپنے محبوب کو بھیجا ہو، تو شدت غم سے اس کے آنسو اس کاغذ یا خط میں جذب ہو گئے۔ بعد میں وہ کاغذ آنسوؤں کے زیر اثر ایک لمبے عرصے تک رہ گیا یعنی نم رہا۔
اس ظاہری معنی کے علاوہ ایک اور تأثر بھی اس شعر سے ابھر کر آتا ہے اور وہ یہ ہے کہ شاعر کی غمناک زندگی کی کہانی جس خط میں یا جس کاغذ میں تحریر تھی وہ کاغذ اس تحریر کی غمناکی کی وجہ سے گویا تصویر درد بن کر رہ گیا۔
غم کو برتنے اور اس کے زاویوں کا اظہار کرنے کا جو انداز میر کے ہاں ہے وہ شاید ہی کہیں اور ملتا ہو۔ میر بہت سادہ الفاظ میں اپنی ذات کو بیان کرتے ہیں اور ان کا بیانیہ آفاقی رنگ حاصل کر لیتا ہے۔ ایک اور ضروری نکتہ جو اس شعر کے تعلق سے بیان کرنا ضروری ہے وہ یہ کہ اس شعر میں ایک کیفیت کو مبالغے کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے مگر یہ مبالغہ بہت حسین ہے، جس نے شعر کی کرافٹ کو بہت ہی رنگین بنا دیا ہے، بہت حسین بنا دیا ہے ۔
سہیل آزاد
دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
عشق بن جینے کے آداب نہیں آتے ہیں
میرؔ صاحب نے کہا ہے کہ میاں عشق کرو
غم رہا جب تک کہ دم میں دم رہا
دل کے جانے کا نہایت غم رہا
-
موضوع : واٹس ایپ
میرؔ کا رنگ برتنا نہیں آساں اے داغؔ
اپنے دیواں سے ملا دیکھیے دیواں ان کا
شعر میرے بھی ہیں پر درد ولیکن حسرتؔ
میرؔ کا شیوۂ گفتار کہاں سے لاؤں
لایا ہے مرا شوق مجھے پردے سے باہر
میں ورنہ وہی خلوتیٔ راز نہاں ہوں
-
موضوعات : تصوفاور 1 مزید
گزرے بہت استاد مگر رنگ اثر میں
بے مثل ہے حسرتؔ سخن میرؔ ابھی تک
سوداؔ تو اس غزل کو غزل در غزل ہی کہہ
ہونا ہے تجھ کو میرؔ سے استاد کی طرف
حالیؔ سخن میں شیفتہؔ سے مستفید ہے
غالبؔ کا معتقد ہے مقلد ہے میرؔ کا
جس سر کو غرور آج ہے یاں تاجوری کا
کل اس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا
تشریح
خدائے سخن میر کی شاعری ہزار زاویوں سے رنگارنگ نظر آتی ہے۔ ایک طرف سوز و غم کے مضامین بیان کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے تو دوسری طرف عشق کی نیرنگی میر کی زبان سے بہت بھلی معلوم ہوتی ہے ۔
جہاں تک اس شعر کے مضامین کا سوال ہے میر نے انسان کی ظاہری شان و شوکت کی بے حیثیتی اور بے ثباتی کو بیان کرنے میں بے مثال طرز اپنایا ہے۔
میر کہتے ہیں کہ آج دنیاوی عزت و غرور پر جو لوگ بےتحاشا بھاگ دوڑ کر رہے ہیں اور اسی مادّہ پرستی materialism کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں وہ ایک نہ ایک دن ختم ہو جانے والی ہے اور یہ عارضی شان و شوکت ضرور بالضرور فنا ہو جانے والی ہے ۔ یہ دنیاوی شان و شوکت، عزت و مرتبہ، تکبّر و حیثیت بس تب تک ہی کے لئے ہے جب تک کہ انسان زندہ ہے۔ اور جیسے ہی وہ موت سے ہمکنار ہوتا ہے سارا تکبّر، ساری حیثیت اور ساری سروری ختم ہو جاتی ہے، بس باقی رہ جاتی ہے تو اس کی موت کی سوگواری، اداسی، نوحہ گری ۔
یہ شعر ایک پیغام دیتا ہے کہ اس بے ثبات حیثیت و منصب کا کیا فائدہ جس کی حدود موت تک ہی ہوں۔ اور موت کے بعد یہ ساری سربلندی، ساری شان و شوکت، اور ساری سروری بے فائدہ رہ جانے والی ہو !!
انسان کو اس ظاہری شان و شوکت پر اتنا گھمنڈ اور تکبر نہیں کرنا چاہیے۔
اصغر گونڈوی اسی بے ثباتی پر فرماتے ہیں۔
سنتا ہوں بڑے غور سے افسانۂ ہستی
کچھ خواب ہے، کچھ اصل ہے، کچھ طرز ِ ادا ہے
سہیل آزاد
ہمارے میر تقی میرؔ نے کہا تھا کبھی
میاں یہ عاشقی عزت بگاڑ دیتی ہے
اب خدا مغفرت کرے اس کی
میرؔ مرحوم تھا عجب کوئی
ہمارا میرؔ جی سے متفق ہونا ہے نا ممکن
اٹھانا ہے جو پتھر عشق کا تو ہلکا بھاری کیا
غالبؔ اپنا یہ عقیدہ ہے بقول ناسخؔ
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میرؔ نہیں
گو کہ تو میرؔ سے ہوا بہتر
مصحفیؔ پھر بھی میرؔ میرؔ ہی ہے
شبہ ناسخؔ نہیں کچھ میرؔ کی استادی میں
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میرؔ نہیں
داغؔ کے شعر جوانی میں بھلے لگتے ہیں
میرؔ کی کوئی غزل گاؤ کہ کچھ چین پڑے
میں ہوں کیا چیز جو اس طرز پہ جاؤں اکبرؔ
ناسخؔ و ذوقؔ بھی جب چل نہ سکے میرؔ کے ساتھ
تم پہ کیا خاک اثر ہوگا مرے شعروں کا
تم کو تو میر تقی میرؔ نہیں کھینچ سکا
سخت مشکل تھا امتحان غزل
میرؔ کی نقل کر کے پاس ہوئے
شاعری میں میرؔ و غالبؔ کے زمانہ اب کہاں
شہرتیں جب اتنی سستی ہوں ادب دیکھے گا کون
جب بھی ٹوٹا مرے خوابوں کا حسیں تاج محل
میں نے گھبرا کے کہی میرؔ کے لہجے میں غزل
جب غزل میرؔ کی پڑھتا ہے پڑوسی میرا
اک نمی سی مری دیوار میں آ جاتی ہے
تمہاری یاد بھی چپکے سے آ کے بیٹھ گئی
غزل جو میرؔ کی اک گنگنا رہا تھا میں
کل شام چھت پہ میر تقی میرؔ کی غزل
میں گنگنا رہی تھی کہ تم یاد آ گئے
کہہ دو میرؔ و غالبؔ سے ہم بھی شعر کہتے ہیں
وہ صدی تمہاری تھی یہ صدی ہماری ہے
ان نے تو تیغ کھینچی تھی پر جی چلا کے میرؔ
ہم نے بھی ایک دم میں تماشا دکھا دیا
پوشیدہ راز عشق چلا جائے تھا سو آج
بے طاقتی نے دل کی وہ پردہ اٹھا دیا
احوال میرؔ کیوں کر آخر ہو ایک شب میں
اک عمر ہم یہ قصہ تم سے کہا کریں گے
مرتا تھا میں تو باز رکھا مرنے سے مجھے
یہ کہہ کے کوئی ایسا کرے ہے ارے ارے
میرؔ جی عشق مانا کہ نعمت نہیں پر میں اس کو بلا بھی نہیں مانتا
مانتا ہوں خدائے سخن بھی تمہیں اور حکم خدا بھی نہیں مانتا
اس کی تو دل آزاری بے ہیچ ہی تھی یارو
کچھ تم کو ہماری بھی تقصیر نظر آئی
پاؤں کے نیچے کی مٹی بھی نہ ہوگی ہم سی
کیا کہیں عمر کو اس طرح بسر ہم نے کیا
تھا سب کو دعویٰ عشق کا لیکن نہ ٹھہرا کوئی بھی
دانستہ اپنی جان سے دل کو اٹھایا ایک میں
سرمہ جو نور بخشے ہے آنکھوں کو خلق کی
شاید کہ راہ یار کی ہی خاک دھول ہو
آگ سی اک دل میں سلگے ہے کبھو بھڑکی تو میرؔ
دے گی میری ہڈیوں کا ڈھیر جوں ایندھن جلا
ہیں چاروں طرف خیمے کھڑے گرد باد کے
کیا جانیے جنوں نے ارادہ کدھر کیا
سیر گلزار مبارک ہو صبا کو ہم تو
ایک پرواز نہ کی تھی کہ گرفتار ہوئے
ہم اس کو ساری عمر اٹھائے پھرا کیے
جو بار میرؔ سے بھی اٹھایا نہ جا سکا
اس جستجو میں اور خرابی تو کیا کہیں
اتنی نہیں ہوئی ہے صبا در بہ در کہ ہم
یا رب کسے ہے ناقہ ہر غنچہ اس چمن کا
راہ وفا کو ہم تو مسدود جانتے ہیں
بس اے گریہ آنکھیں تری کیا نہیں ہیں
کہاں تک جہاں کو ڈبوتا رہے گا