Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Shad Azimabadi's Photo'

شاد عظیم آبادی

1846 - 1927 | پٹنہ, انڈیا

ممتاز ترین قبل از جدید شاعروں میں نمایاں

ممتاز ترین قبل از جدید شاعروں میں نمایاں

شاد عظیم آبادی کے اشعار

18.1K
Favorite

باعتبار

نگاہ ناز سے ساقی کا دیکھنا مجھ کو

مرا وہ ہاتھ میں ساغر اٹھا کے رہ جانا

جیتے جی ہم تو غم فردا کی دھن میں مر گئے

کچھ وہی اچھے ہیں جو واقف نہیں انجام سے

دل مضطر سے پوچھ اے رونق بزم

میں خود آیا نہیں لایا گیا ہوں

تیرے بیمار محبت کی یہ حالت پہنچی

کہ ہٹایا گیا تکیہ بھی سرہانے والا

بھرے ہوں آنکھ میں آنسو خمیدہ گردن ہو

تو خامشی کو بھی اظہار مدعا کہیے

اجل بھی ٹل گئی دیکھی گئی حالت نہ آنکھوں سے

شب غم میں مصیبت سی مصیبت ہم نے جھیلی ہے

ترا آستاں جو نہ مل سکا تری رہ گزر کی زمیں سہی

ہمیں سجدہ کرنے سے کام ہے جو وہاں نہیں تو کہیں سہی

دیکھنے والے کو تیرے دیکھنے آتے ہیں لوگ

جو کشش تجھ میں تھی اب وو تیرے دیوانہ میں ہے

کہتے ہیں اہل ہوش جب افسانہ آپ کا

ہنستا ہے دیکھ دیکھ کے دیوانہ آپ کا

تسکین تو ہوتی تھی تسکین نہ ہونے ث

رونا بھی نہیں آتا ہر وقت کے رونے سے

خاروں سے یہ کہہ دو کہ گل تر سے نہ الجھیں

سیکھے کوئی انداز شریفانہ ہمارا

نازک تھا بہت کچھ دل میرا اے شادؔ تحمل ہو نہ سکا

اک ٹھیس لگی تھی یوں ہی سی کیا جلد یہ شیشہ ٹوٹ گیا

پروانوں کا تو حشر جو ہونا تھا ہو چکا

گزری ہے رات شمع پہ کیا دیکھتے چلیں

سن چکے جب حال میرا لے کے انگڑائی کہا

کس غضب کا درد ظالم تیرے افسانے میں تھا

اے شوق پتا کچھ تو ہی بتا اب تک یہ کرشمہ کچھ نہ کھلا

ہم میں ہے دل بے تاب نہاں یا آپ دل بے تاب ہیں ہم

دل اپنی طلب میں صادق تھا گھبرا کے سوئے مطلوب گیا

دریا سے یہ موتی نکلا تھا دریا ہی میں جا کر ڈوب گیا

غنچوں کے مسکرانے پہ کہتے ہیں ہنس کے پھول

اپنا کرو خیال ہماری تو کٹ گئی

نظر کی برچھیاں جو سہہ سکے سینا اسی کا ہے

ہمارا آپ کا جینا نہیں جینا اسی کا ہے

چمن میں جا کے ہم نے غور سے اوراق گل دیکھے

تمہارے حسن کی شرحیں لکھی ہیں ان رسالوں میں

میں حیرت و حسرت کا مارا خاموش کھڑا ہوں ساحل پر

دریائے محبت کہتا ہے آ کچھ بھی نہیں پایاب ہیں ہم

ہزار شکر میں تیرے سوا کسی کا نہیں

ہزار حیف کہ اب تک ہوا نہ تو میرا

جیسے مری نگاہ نے دیکھا نہ ہو کبھی

محسوس یہ ہوا تجھے ہر بار دیکھ کر

اظہار مدعا کا ارادہ تھا آج کچھ

تیور تمہارے دیکھ کے خاموش ہو گیا

کہاں سے لاؤں صبر حضرت ایوب اے ساقی

خم آئے گا صراحی آئے گی تب جام آئے گا

عید میں عید ہوئی عیش کا ساماں دیکھا

دیکھ کر چاند جو منہ آپ کا اے جاں دیکھا

لحد میں کیوں نہ جاؤں منہ چھپائے

بھری محفل سے اٹھوایا گیا ہوں

ایک ستم اور لاکھ ادائیں اف ری جوانی ہائے زمانے

ترچھی نگاہیں تنگ قبائیں اف ری جوانی ہائے زمانے

طلب کریں بھی تو کیا شے طلب کریں اے شادؔ

ہمیں تو آپ نہیں اپنا مدعا معلوم

جو تنگ آ کر کسی دن دل پہ ہم کچھ ٹھان لیتے ہیں

ستم دیکھو کہ وہ بھی چھوٹتے پہچان لیتے ہیں

میں شادؔ تنہا اک طرف دنیا کی دنیا اک طرف

سارا سمندر اک طرف آنسو کا قطرہ اک طرف

یہ بزم مے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی

جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے

ہوں اس کوچے کے ہر ذرے سے آگاہ

ادھر سے مدتوں آیا گیا ہوں

اب بھی اک عمر پہ جینے کا نہ انداز آیا

زندگی چھوڑ دے پیچھا مرا میں باز آیا

دیکھا کیے وہ مست نگاہوں سے بار بار

جب تک شراب آئی کئی دور ہو گئے

سنی حکایت ہستی تو درمیاں سے سنی

نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم

تمناؤں میں الجھایا گیا ہوں

کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں

ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

جو یاد نہ آئے بھول کے پھر اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم

کچھ ایسا کر کہ خلد آباد تک اے شادؔ جا پہنچیں

ابھی تک راہ میں وہ کر رہے ہیں انتظار اپنا

کون سی بات نئی اے دل ناکام ہوئی

شام سے صبح ہوئی صبح سے پھر شام ہوئی

شب کو مری چشم حسرت کا سب درد دل ان سے کہہ جانا

دانتوں میں دبا کر ہونٹ اپنا کچھ سوچ کے اس کا رہ جانا

خموشی سے مصیبت اور بھی سنگین ہوتی ہے

تڑپ اے دل تڑپنے سے ذرا تسکین ہوتی ہے

جب کسی نے حال پوچھا رو دیا

چشم تر تو نے تو مجھ کو کھو دیا

ملے گا غیر بھی ان کے گلے بہ شوق اے دل

حلال کرنے مجھے عید کا ہلال آیا

Recitation

بولیے