Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شعر پر اشعار

شعرپر یا شاعری پرکی

جانے والی شاعری کئی معنی میں اہم ہے ۔ یہ شاعری ہمیں شعر سازی کی ترکیبوں اورفن کی باریکیوں سے بھی آگاہ کرتی ہے اوربعض اوقات شاعری کے مقاصد اوراس سےمتعلق بہت سےمعاملات پرروشنی ڈالتی ہے۔

اصغرؔ غزل میں چاہئے وہ موج زندگی

جو حسن ہے بتوں میں جو مستی شراب میں

اصغر گونڈوی

حرف کو برگ نوا دیتا ہوں

یوں مرے پاس ہنر کچھ بھی نہیں

خلیل تنویر

شاعری تازہ زمانوں کی ہے معمار فرازؔ

یہ بھی اک سلسلۂ کن فیکوں ہے یوں ہے

احمد فراز

بندش الفاظ جڑنے سے نگوں کے کم نہیں

شاعری بھی کام ہے آتشؔ مرصع ساز کا

حیدر علی آتش

ڈائری میں سارے اچھے شعر چن کر لکھ لیے

ایک لڑکی نے مرا دیوان خالی کر دیا

اعتبار ساجد

لوگ کہتے ہیں کہ فن شاعری منحوس ہے

شعر کہتے کہتے میں ڈپٹی کلکٹر ہو گیا

کلب حسین نادر

ہم سے پوچھو کہ غزل کیا ہے غزل کا فن کیا

چند لفظوں میں کوئی آگ چھپا دی جائے

جاں نثار اختر

اشعار مرے یوں تو زمانے کے لیے ہیں

کچھ شعر فقط ان کو سنانے کے لیے ہیں

جاں نثار اختر

وہی رہ جاتے ہیں زبانوں پر

شعر جو انتخاب ہوتے ہیں

امیر مینائی

راہ مضمون تازہ بند نہیں

تا قیامت کھلا ہے باب سخن

ولی محمد ولی

سادہ سمجھو نہ انہیں رہنے دو دیواں میں امیرؔ

یہی اشعار زبانوں پہ ہیں رہنے والے

امیر مینائی

اس کا تو ایک لفظ بھی ہم کو نہیں ہے یاد

کل رات ایک شعر کہا تھا جو خواب میں

کمال احمد صدیقی

شاعر کو مست کرتی ہے تعریف شعر امیرؔ

سو بوتلوں کا نشہ ہے اس واہ واہ میں

امیر مینائی

مجھ کو مرنے نہ دیا شعر اتارے مجھ پر

عشق نے بس یہ مرے ساتھ رعایت کی تھی

عمار یاسر مگسی

مرے انگ انگ میں بس گئی

یہ جو شاعری ہے یہ کون ہے

فرحت عباس شاہ

ہزاروں شعر میرے سو گئے کاغذ کی قبروں میں

عجب ماں ہوں کوئی بچہ مرا زندہ نہیں رہتا

بشیر بدر

اپنے لہجے کی حفاظت کیجئے

شعر ہو جاتے ہیں نامعلوم بھی

ندا فاضلی

ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی

اک طرفہ تماشا ہے حسرتؔ کی طبیعت بھی

حسرتؔ موہانی

بھوک تخلیق کا ٹیلنٹ بڑھا دیتی ہے

پیٹ خالی ہو تو ہم شعر نیا کہتے ہیں

خالد عرفان

کھلتا کسی پہ کیوں مرے دل کا معاملہ

شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے

مرزا غالب

شاعری میں انفس و آفاق مبہم ہیں ابھی

استعارہ ہی حقیقت میں خدا سا خواب ہے

کاوش بدری

ہمارے شعر کو سن کر سکوت خوب نہیں

بیان کیجئے اس میں جو کچھ تأمل ہو

جوشش عظیم آبادی

رہتا سخن سے نام قیامت تلک ہے ذوقؔ

اولاد سے رہے یہی دو پشت چار پشت

شیخ ابراہیم ذوقؔ

سخن میں سہل نہیں جاں نکال کر رکھنا

یہ زندگی ہے ہماری سنبھال کر رکھنا

عبید اللہ علیم

میرا ہر شعر ہے اک راز حقیقت بیخودؔ

میں ہوں اردو کا نظیریؔ مجھے تو کیا سمجھا

بیخود دہلوی

زندگی بھر کی کمائی یہی مصرعے دو چار

اس کمائی پہ تو عزت نہیں ملنے والی

افتخار عارف

چھپی ہے ان گنت چنگاریاں لفظوں کے دامن میں

ذرا پڑھنا غزل کی یہ کتاب آہستہ آہستہ

پریم بھنڈاری

ہمارے شعر ہیں اب صرف دل لگی کے اسدؔ

کھلا کہ فائدہ عرض ہنر میں خاک نہیں

مرزا غالب

کیفؔ یوں آغوش فن میں ذہن کو نیند آ گئی

جیسے ماں کی گود میں بچہ سسک کر سو گیا

کیف احمد صدیقی

یہ ترے اشعار تیری معنوی اولاد ہیں

اپنے بچے بیچنا اقبال ساجدؔ چھوڑ دے

اقبال ساجد

دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں

جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں

ساحر لدھیانوی

یہ شاعری یہ کتابیں یہ آیتیں دل کی

نشانیاں یہ سبھی تجھ پہ وارنا ہوں گی

محسن نقوی

کہیں کہیں سے کچھ مصرعے ایک آدھ غزل کچھ شعر

اس پونجی پر کتنا شور مچا سکتا تھا میں

افتخار عارف

شعر دراصل ہیں وہی حسرتؔ

سنتے ہی دل میں جو اتر جائیں

حسرتؔ موہانی

اونے پونے غزلیں بیچیں نظموں کا بیوپار کیا

دیکھو ہم نے پیٹ کی خاطر کیا کیا کاروبار کیا

محمود شام

اس کو سمجھو نہ خط نفس حفیظؔ

اور ہی کچھ ہے شاعری سے غرض

حفیظ جونپوری

خشک سیروں تن شاعر کا لہو ہوتا ہے

تب نظر آتی ہے اک مصرعۂ تر کی صورت

امیر مینائی

غزل کا شعر تو ہوتا ہے بس کسی کے لیے

مگر ستم ہے کہ سب کو سنانا پڑتا ہے

اظہر عنایتی

اپنی رسوائی ترے نام کا چرچا دیکھوں

اک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں

پروین شاکر

سو شعر ایک جلسے میں کہتے تھے ہم امیرؔ

جب تک نہ شعر کہنے کا ہم کو شعور تھا

امیر مینائی

شعر سے شاعری سے ڈرتے ہیں

کم نظر روشنی سے ڈرتے ہیں

حبیب جالب

مجھ کو شاعر نہ کہو میرؔ کہ صاحب میں نے

درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا

میر تقی میر

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے