شوخی پر اشعار

شوخی معشوق کے حسن میں

مزید اضافہ کرتی ہے۔ معشوق اگر شوخ نہ ہو تو اس کے حسن میں ایک ذرا کمی تو رہ جاتی ہے ۔ ہمارے انتخاب کئے ہوئے ان اشعار میں آپ دیکھیں گے کہ معشوق کی شوخیاں کتنی دلچسپ اور مزے دار ہیں ان کا اظہار اکثر جگہوں پر عاشق کے ساتھ مکالمے میں ہوا ہے ۔

پوچھا جو ان سے چاند نکلتا ہے کس طرح

زلفوں کو رخ پہ ڈال کے جھٹکا دیا کہ یوں

آرزو لکھنوی

جو کہا میں نے کہ پیار آتا ہے مجھ کو تم پر

ہنس کے کہنے لگا اور آپ کو آتا کیا ہے

اکبر الہ آبادی

فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا

نہ ہو نگاہ میں شوخی تو دلبری کیا ہے

علامہ اقبال

عشوہ بھی ہے شوخی بھی تبسم بھی حیا بھی

ظالم میں اور اک بات ہے اس سب کے سوا بھی

اکبر الہ آبادی

ساتھ شوخی کے کچھ حجاب بھی ہے

اس ادا کا کہیں جواب بھی ہے

داغؔ دہلوی

پردۂ لطف میں یہ ظلم و ستم کیا کہیے

ہائے ظالم ترا انداز کرم کیا کہیے

فراق گورکھپوری

شوخی سے ٹھہرتی نہیں قاتل کی نظر آج

یہ برق بلا دیکھیے گرتی ہے کدھر آج

داغؔ دہلوی

کہا میں نے مرتا ہوں تم پر تو بولے

نکلتے نہ دیکھا جنازہ کسی کا

نامعلوم

ذرا ان کی شوخی تو دیکھنا لیے زلف خم شدہ ہاتھ میں

میرے پاس آئے دبے دبے مجھے سانپ کہہ کے ڈرا دیا

نواب سلطان جہاں بیگم

شوخیٔ حسن کے نظارے کی طاقت ہے کہاں

طفل ناداں ہوں میں بجلی سے دہل جاتا ہوں

مصحفی غلام ہمدانی

Jashn-e-Rekhta | 2-3-4 December 2022 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate, New Delhi

GET YOUR FREE PASS
بولیے