Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Momin Khan Momin's Photo'

مومن خاں مومن

1800 - 1852 | دلی, انڈیا

غالب اور ذوق کے ہم عصر۔ وہ حکیم ، ماہر نجوم اور شطرنج کے کھلاڑی بھی تھے۔ کہا جاتا ہے کہ مرزا غالب نے ان کے شعر ’ تم مرے پاس ہوتے ہو گویا/ جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا‘ پر اپنا پورا دیوان دینے کی بات کہی تھی

غالب اور ذوق کے ہم عصر۔ وہ حکیم ، ماہر نجوم اور شطرنج کے کھلاڑی بھی تھے۔ کہا جاتا ہے کہ مرزا غالب نے ان کے شعر ’ تم مرے پاس ہوتے ہو گویا/ جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا‘ پر اپنا پورا دیوان دینے کی بات کہی تھی

مومن خاں مومن کے اشعار

42.3K
Favorite

باعتبار

بہر عیادت آئے وہ لیکن قضا کے ساتھ

دم ہی نکل گیا مرا آواز پا کے ساتھ

عمر ساری تو کٹی عشق بتاں میں مومنؔ

آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے

غیروں پہ کھل نہ جائے کہیں راز دیکھنا

میری طرف بھی غمزۂ غماز دیکھنا

اس نقش پا کے سجدے نے کیا کیا کیا ذلیل

میں کوچۂ رقیب میں بھی سر کے بل گیا

ہے کچھ تو بات مومنؔ جو چھا گئی خموشی

کس بت کو دے دیا دل کیوں بت سے بن گئے ہو

دیدۂ حیراں نے تماشا کیا

دیر تلک وہ مجھے دیکھا کیا

محشر میں پاس کیوں دم فریاد آ گیا

رحم اس نے کب کیا تھا کہ اب یاد آ گیا

میرے تغییر رنگ کو مت دیکھ

تجھ کو اپنی نظر نہ ہو جائے

کیا تم نے قتل جہاں اک نظر میں

کسی نے نہ دیکھا تماشا کسی کا

مانگا کریں گے اب سے دعا ہجر یار کی

آخر تو دشمنی ہے اثر کو دعا کے ساتھ

شب جو مسجد میں جا پھنسے مومنؔ

رات کاٹی خدا خدا کر کے

مجلس میں مرے ذکر کے آتے ہی اٹھے وہ

بدنامی عشاق کا اعزاز تو دیکھو

اعجاز جاں دہی ہے ہمارے کلام کو

زندہ کیا ہے ہم نے مسیحا کے نام کو

کر علاج جوش وحشت چارہ گر

لا دے اک جنگل مجھے بازار سے

دشنام یار طبع حزیں پر گراں نہیں

اے ہم نشیں نزاکت آواز دیکھنا

میں بھی کچھ خوش نہیں وفا کر کے

تم نے اچھا کیا نباہ نہ کی

ہو گیا راز عشق بے پردہ

اس نے پردہ سے جو نکالا منہ

اتنی کدورت اشک میں حیراں ہوں کیا کہوں

دریا میں ہے سراب کہ دریا سراب میں

تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے

ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا

کسی کا ہوا آج کل تھا کسی کا

نہ ہے تو کسی کا نہ ہوگا کسی کا

وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہی یعنی وعدہ نباہ کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

نے جائے واں بنے ہے نے بن جائے چین ہے

کیا کیجئے ہمیں تو ہے مشکل سبھی طرح

رویا کریں گے آپ بھی پہروں اسی طرح

اٹکا کہیں جو آپ کا دل بھی مری طرح

ہے کس کا انتظار کہ خواب عدم سے بھی

ہر بار چونک پڑتے ہیں آواز پا کے ساتھ

صاحب نے اس غلام کو آزاد کر دیا

لو بندگی کہ چھوٹ گئے بندگی سے ہم

کل تم جو بزم غیر میں آنکھیں چرا گئے

کھوئے گئے ہم ایسے کہ اغیار پا گئے

لے شب وصل غیر بھی کاٹی

تو مجھے آزمائے گا کب تک

پیہم سجود پائے صنم پر دم وداع

مومنؔ خدا کو بھول گئے اضطراب میں

ہاتھ ٹوٹیں میں نے گر چھیڑی ہوں زلفیں آپ کی

آپ کے سر کی قسم باد صبا تھی میں نہ تھا

ڈرتا ہوں آسمان سے بجلی نہ گر پڑے

صیاد کی نگاہ سوئے آشیاں نہیں

حال دل یار کو لکھوں کیوں کر

ہاتھ دل سے جدا نہیں ہوتا

ٹھانی تھی دل میں اب نہ ملیں گے کسی سے ہم

پر کیا کریں کہ ہو گئے ناچار جی سے ہم

تو کہاں جائے گی کچھ اپنا ٹھکانہ کر لے

ہم تو کل خواب عدم میں شب ہجراں ہوں گے

اس غیرت ناہید کی ہر تان ہے دیپک

شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو

چل دئیے سوئے حرم کوئے بتاں سے مومنؔ

جب دیا رنج بتوں نے تو خدا یاد آیا

وہ آئے ہیں پشیماں لاش پر اب

تجھے اے زندگی لاؤں کہاں سے

سن کے میری مرگ بولے مر گیا اچھا ہوا

کیا برا لگتا تھا جس دم سامنے آ جائے تھا

ہم سمجھتے ہیں آزمانے کو

عذر کچھ چاہیے ستانے کو

گو آپ نے جواب برا ہی دیا ولے

مجھ سے بیاں نہ کیجے عدو کے پیام کو

نہ کرو اب نباہ کی باتیں

تم کو اے مہربان دیکھ لیا

اب شور ہے مثال جودی اس خرام کو

یوں کون جانتا تھا قیامت کے نام کو

آپ کی کون سی بڑھی عزت

میں اگر بزم میں ذلیل ہوا

کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی کبھی ہم سے تم سے بھی راہ تھی

کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

ہو گئے نام بتاں سنتے ہی مومنؔ بے قرار

ہم نہ کہتے تھے کہ حضرت پارسا کہنے کو ہیں

سینہ کوبی سے زمیں ساری ہلا کے اٹھے

کیا علم دھوم سے تیرے شہدا کے اٹھے

کس پہ مرتے ہو آپ پوچھتے ہیں

مجھ کو فکر جواب نے مارا

کچھ قفس میں ان دنوں لگتا ہے جی

آشیاں اپنا ہوا برباد کیا

تم مرے پاس ہوتے ہو گویا

جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

معشوق سے بھی ہم نے نبھائی برابری

واں لطف کم ہوا تو یہاں پیار کم ہوا

کیا جانے کیا لکھا تھا اسے اضطراب میں

قاصد کی لاش آئی ہے خط کے جواب میں

Recitation

بولیے