Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Faiz Ahmad Faiz's Photo'

فیض احمد فیض

1911 - 1984 | لاہور, پاکستان

سب سے پسندیدہ اور مقبول پاکستانی شاعروں میں سے ایک ، اپنے انقلابی خیالات کے سبب کئی برس قید میں رہے

سب سے پسندیدہ اور مقبول پاکستانی شاعروں میں سے ایک ، اپنے انقلابی خیالات کے سبب کئی برس قید میں رہے

فیض احمد فیض کے اشعار

271.2K
Favorite

باعتبار

اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا

راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا

دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے

لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے

کر رہا تھا غم جہاں کا حساب

آج تم یاد بے حساب آئے

اور کیا دیکھنے کو باقی ہے

آپ سے دل لگا کے دیکھ لیا

دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے

وہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کے

دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا

تجھ سے بھی دل فریب ہیں غم روزگار کے

اک طرز تغافل ہے سو وہ ان کو مبارک

اک عرض تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے

تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں

کسی بہانے تمہیں یاد کرنے لگتے ہیں

گر بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا

گر جیت گئے تو کیا کہنا ہارے بھی تو بازی مات نہیں

وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا

وہ بات ان کو بہت نا گوار گزری ہے

نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی

نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی

مقام فیضؔ کوئی راہ میں جچا ہی نہیں

جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

آئے تو یوں کہ جیسے ہمیشہ تھے مہربان

بھولے تو یوں کہ گویا کبھی آشنا نہ تھے

وہ آ رہے ہیں وہ آتے ہیں آ رہے ہوں گے

شب فراق یہ کہہ کر گزار دی ہم نے

زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں

ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں

گلوں میں رنگ بھرے باد نوبہار چلے

چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے

تشریح

اس شعر کا مزاج غزل کے رویتی مزاج سے ملتا ہے۔ چونکہ فیض نے ترقی پسند فکر کی ترجمانی میں بھی اردو شعریات کی روایت کا پورا لحاظ رکھا لہٰذا ان کی تخلیقات میں اگرچہ علامتی سطح پر ترقی پسند سوچ کی کارفرمائی دکھائی دیتی ہے تاہم ان کی شعری دنیا میں اور بھی امکانات موجود ہیں۔ جس کی سب سے بڑی مثال یہ مشہور شعر ہے۔ بادِ نو بہار کے معنی نئی بہار کی ہواہے۔ پہلے اس شعر کی تشریح ترقی پسند فکر کو مدِ نظر کرتے ہیں۔ فیض کی شکایت یہ رہی ہے کہ انقلاب رونما ہونے کے باوجود استحصال کی چکی میں پسنے والوں کی تقدیر نہیں بدلتی ۔ اس شعر میں اگر بادِ نو بہار کو انقلاب کی علامت مان لیا جائے تو شعر کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ گلشن (ملک، زمانہ وغیرہ) کا کاروبار تب تک نہیں چل سکتا جب تک کہ انقلاب اپنے صحیح معنوں میں نہیں آتا۔ اسی لئے وہ انقلاب یا بدلاؤ سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ جب تم رونما ہوجاؤ گے تب پھولوں میں نئی بہار کی ہوا تازگی لائی گی۔ اور اس طرح سے چمن کا کاروبار چلے گا۔ دوسرے معنوں میں وہ اپنے محبوب سے کہتے ہیں کہ تم اب آ بھی جاؤ تاکہ گلوں میں نئی بہار کی ہوا رنگ بھرے اور چمن کھل اٹھے۔

شفق سوپوری

کب ٹھہرے گا درد اے دل کب رات بسر ہوگی

سنتے تھے وہ آئیں گے سنتے تھے سحر ہوگی

یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر

وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں

اک فرصت گناہ ملی وہ بھی چار دن

دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے

نہ جانے کس لیے امیدوار بیٹھا ہوں

اک ایسی راہ پہ جو تیری رہ گزر بھی نہیں

''آپ کی یاد آتی رہی رات بھر''

چاندنی دل دکھاتی رہی رات بھر

ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے

جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے

اٹھ کر تو آ گئے ہیں تری بزم سے مگر

کچھ دل ہی جانتا ہے کہ کس دل سے آئے ہیں

جانتا ہے کہ وہ نہ آئیں گے

پھر بھی مصروف انتظار ہے دل

یہ آرزو بھی بڑی چیز ہے مگر ہم دم

وصال یار فقط آرزو کی بات نہیں

بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے

تم اچھے مسیحا ہو شفا کیوں نہیں دیتے

فیضؔ تھی راہ سر بسر منزل

ہم جہاں پہنچے کامیاب آئے

نہ گل کھلے ہیں نہ ان سے ملے نہ مے پی ہے

عجیب رنگ میں اب کے بہار گزری ہے

تیرے قول و قرار سے پہلے

اپنے کچھ اور بھی سہارے تھے

آئے کچھ ابر کچھ شراب آئے

اس کے بعد آئے جو عذاب آئے

ساری دنیا سے دور ہو جائے

جو ذرا تیرے پاس ہو بیٹھے

دل سے تو ہر معاملہ کر کے چلے تھے صاف ہم

کہنے میں ان کے سامنے بات بدل بدل گئی

جب تجھے یاد کر لیا صبح مہک مہک اٹھی

جب ترا غم جگا لیا رات مچل مچل گئی

رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی

جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے

کٹتے بھی چلو بڑھتے بھی چلو بازو بھی بہت ہیں سر بھی بہت

چلتے بھی چلو کہ اب ڈیرے منزل ہی پہ ڈالے جائیں گے

انہیں کے فیض سے بازار عقل روشن ہے

جو گاہ گاہ جنوں اختیار کرتے رہے

میری خاموشیوں میں لرزاں ہے

میرے نالوں کی گم شدہ آواز

ہم شیخ نہ لیڈر نہ مصاحب نہ صحافی

جو خود نہیں کرتے وہ ہدایت نہ کریں گے

غم جہاں ہو رخ یار ہو کہ دست عدو

سلوک جس سے کیا ہم نے عاشقانہ کیا

اب اپنا اختیار ہے چاہے جہاں چلیں

رہبر سے اپنی راہ جدا کر چکے ہیں ہم

کرو کج جبیں پہ سر کفن مرے قاتلوں کو گماں نہ ہو

کہ غرور عشق کا بانکپن پس مرگ ہم نے بھلا دیا

شام فراق اب نہ پوچھ آئی اور آ کے ٹل گئی

دل تھا کہ پھر بہل گیا جاں تھی کہ پھر سنبھل گئی

جدا تھے ہم تو میسر تھیں قربتیں کتنی

بہم ہوئے تو پڑی ہیں جدائیاں کیا کیا

ہم سہل طلب کون سے فرہاد تھے لیکن

اب شہر میں تیرے کوئی ہم سا بھی کہاں ہے

ہم ایسے سادہ دلوں کی نیاز مندی سے

بتوں نے کی ہیں جہاں میں خدائیاں کیا کیا

مری جان آج کا غم نہ کر کہ نہ جانے کاتب وقت نے

کسی اپنے کل میں بھی بھول کر کہیں لکھ رکھی ہوں مسرتیں

ادائے حسن کی معصومیت کو کم کر دے

گناہ گار نظر کو حجاب آتا ہے

خیر دوزخ میں مے ملے نہ ملے

شیخ صاحب سے جاں تو چھوٹے گی

اگر شرر ہے تو بھڑکے جو پھول ہے تو کھلے

طرح طرح کی طلب تیرے رنگ لب سے ہے

پھر نظر میں پھول مہکے دل میں پھر شمعیں جلیں

پھر تصور نے لیا اس بزم میں جانے کا نام

Recitation

بولیے