Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Fani Badayuni's Photo'

فانی بدایونی

1879 - 1941 | بدایوں, انڈیا

ممتاز ترین قبل از جدید شاعروں میں نمایاں، اپنی شاعری کے اداس رنگ کے لیے معروف

ممتاز ترین قبل از جدید شاعروں میں نمایاں، اپنی شاعری کے اداس رنگ کے لیے معروف

فانی بدایونی کے اشعار

31.4K
Favorite

باعتبار

ہر نفس عمر گزشتہ کی ہے میت فانیؔ

زندگی نام ہے مر مر کے جئے جانے کا

سنے جاتے نہ تھے تم سے مرے دن رات کے شکوے

کفن سرکاؤ میری بے زبانی دیکھتے جاؤ

اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا

زندگی کاہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا

ناامیدی موت سے کہتی ہے اپنا کام کر

آس کہتی ہے ٹھہر خط کا جواب آنے کو ہے

ہر مصیبت کا دیا ایک تبسم سے جواب

اس طرح گردش دوراں کو رلایا میں نے

دنیا میری بلا جانے مہنگی ہے یا سستی ہے

موت ملے تو مفت نہ لوں ہستی کی کیا ہستی ہے

دل سراپا درد تھا وہ ابتدائے عشق تھی

انتہا یہ ہے کہ فانیؔ درد اب دل ہو گیا

آتے ہیں عیادت کو تو کرتے ہیں نصیحت

احباب سے غم خوار ہوا بھی نہیں جاتا

ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا

بات پہنچی تری جوانی تک

موت کا انتظار باقی ہے

آپ کا انتظار تھا نہ رہا

آبادی بھی دیکھی ہے ویرانے بھی دیکھے ہیں

جو اجڑے اور پھر نہ بسے دل وہ نرالی بستی ہے

نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم

رہا یہ وہم کہ ہم ہیں سو وہ بھی کیا معلوم

کچھ کٹی ہمت سوال میں عمر

کچھ امید جواب میں گزری

موجوں کی سیاست سے مایوس نہ ہو فانیؔ

گرداب کی ہر تہہ میں ساحل نظر آتا ہے

یارب تری رحمت سے مایوس نہیں فانیؔ

لیکن تری رحمت کی تاخیر کو کیا کہیے

جوانی کو بچا سکتے تو ہیں ہر داغ سے واعظ

مگر ایسی جوانی کو جوانی کون کہتا ہے

یوں چرائیں اس نے آنکھیں سادگی تو دیکھیے

بزم میں گویا مری جانب اشارا کر دیا

بہلا نہ دل نہ تیرگیٔ شام غم گئی

یہ جانتا تو آگ لگاتا نہ گھر کو میں

اس کو بھولے تو ہوئے ہو فانیؔ

کیا کروگے وہ اگر یاد آیا

اپنی جنت مجھے دکھلا نہ سکا تو واعظ

کوچۂ یار میں چل دیکھ لے جنت میری

زندگی جبر ہے اور جبر کے آثار نہیں

ہائے اس قید کو زنجیر بھی درکار نہیں

ہم ہیں اس کے خیال کی تصویر

جس کی تصویر ہے خیال اپنا

میرے جنوں کو زلف کے سائے سے دور رکھ

رستے میں چھاؤں پا کے مسافر ٹھہر نہ جائے

درد دل کی انہیں خبر کیا ہو

جانتا کون ہے پرائی چوٹ

یوں نہ قاتل کو جب یقیں آیا

ہم نے دل کھول کر دکھائی چوٹ

وہ نظر کامیاب ہو کے رہی

دل کی بستی خراب ہو کے رہی

کسی کے ایک اشارے میں کس کو کیا نہ ملا

بشر کو زیست ملی موت کو بہانہ ملا

دل کا اجڑنا سہل سہی بسنا سہل نہیں ظالم

بستی بسنا کھیل نہیں بستے بستے بستی ہے

دل مرحوم کو خدا بخشے

ایک ہی غم گسار تھا نہ رہا

کفن اے گرد لحد دیکھ نہ میلا ہو جائے

آج ہی ہم نے یہ کپڑے ہیں نہا کے بدلے

رونے کے بھی آداب ہوا کرتے ہیں فانیؔ

یہ اس کی گلی ہے تیرا غم خانہ نہیں ہے

روح گھبرائی ہوئی پھرتی ہے میری لاش پر

کیا جنازے پر میرے خط کا جواب آنے کو ہے

شکوۂ ہجر پہ سر کاٹ کے فرماتے ہیں

پھر کروگے کبھی اس منہ سے شکایت میری

مسکرائے وہ حال دل سن کر

اور گویا جواب تھا ہی نہیں

پھر کسی کی یاد نے تڑپا دیا

پھر کلیجہ تھام کر ہم رہ گئے

روز جزا گلہ تو کیا شکر ستم ہی بن پڑا

ہائے کہ دل کے درد نے درد کو دل بنا دیا

دیر میں یا حرم میں گزرے گی

عمر تیرے ہی غم میں گزرے گی

نہیں ضرور کہ مر جائیں جاں نثار تیرے

یہی ہے موت کہ جینا حرام ہو جائے

مجھ تک اس محفل میں پھر جام شراب آنے کو ہے

عمر رفتہ پلٹی آتی ہے شباب آنے کو ہے

ترک امید بس کی بات نہیں

ورنہ امید کب بر آئی ہے

تنکوں سے کھیلتے ہی رہے آشیاں میں ہم

آیا بھی اور گیا بھی زمانہ بہار کا

آنکھ اٹھائی ہی تھی کہ کھائی چوٹ

بچ گئی آنکھ دل پہ آئی چوٹ

یوں نہ کسی طرح کٹی جب مری زندگی کی رات

چھیڑ کے داستان غم دل نے مجھے سلا دیا

  • موضوعات : دل
    اور 1 مزید

روح ارباب محبت کی لرز جاتی ہے

تو پشیمان نہ ہو اپنی جفا یاد نہ کر

کس خرابی سے زندگی فانیؔ

اس جہان خراب میں گزری

کشتئ اعتبار توڑ کے دیکھ

کہ خدا بھی ہے نا خدا ہی نہیں

جینے بھی نہیں دیتے مرنے بھی نہیں دیتے

کیا تم نے محبت کی ہر رسم اٹھا ڈالی

وہ صبح عید کا منظر ترے تصور میں

وہ دل میں آ کے ادا تیرے مسکرانے کی

اے بے خودی ٹھہر کہ بہت دن گزر گئے

مجھ کو خیال یار کہیں ڈھونڈتا نہ ہو

جلوہ و دل میں فرق نہیں جلوے کو ہی اب دل کہتے ہیں

یعنی عشق کی ہستی کا آغاز تو ہے انجام نہیں

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے