Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Kaif Bhopali's Photo'

کیف بھوپالی

1917 - 1991 | بھوپال, انڈیا

ممتاز مقبول شاعر اور فلم نغمہ نگار۔ فلم’پاکیزہ‘ کے گیتوں کے لئے مشہور

ممتاز مقبول شاعر اور فلم نغمہ نگار۔ فلم’پاکیزہ‘ کے گیتوں کے لئے مشہور

کیف بھوپالی کے اشعار

40K
Favorite

باعتبار

داغ دنیا نے دیے زخم زمانے سے ملے

ہم کو تحفے یہ تمہیں دوست بنانے سے ملے

زندگی شاید اسی کا نام ہے

دوریاں مجبوریاں تنہائیاں

آگ کا کیا ہے پل دو پل میں لگتی ہے

بجھتے بجھتے ایک زمانا لگتا ہے

تم سے مل کر املی میٹھی لگتی ہے

تم سے بچھڑ کر شہد بھی کھارا لگتا ہے

ہائے لوگوں کی کرم فرمائیاں

تہمتیں بدنامیاں رسوائیاں

جناب کیفؔ یہ دلی ہے میرؔ و غالبؔ کی

یہاں کسی کی طرف داریاں نہیں چلتیں

میرے دل نے دیکھا ہے یوں بھی ان کو الجھن میں

بار بار کمرے میں بار بار آنگن میں

مے کشو آگے بڑھو تشنہ لبو آگے بڑھو

اپنا حق مانگا نہیں جاتا ہے چھینا جائے ہے

چاہتا ہوں پھونک دوں اس شہر کو

شہر میں ان کا بھی گھر ہے کیا کروں

تجھے کون جانتا تھا مری دوستی سے پہلے

ترا حسن کچھ نہیں تھا مری شاعری سے پہلے

چار جانب دیکھ کر سچ بولئے

آدمی پھرتے ہیں سرکاری بہت

ان سے مل کر اور بھی کچھ بڑھ گئیں

الجھنیں فکریں قیاس آرائیاں

کون آئے گا یہاں کوئی نہ آیا ہوگا

میرا دروازہ ہواؤں نے ہلایا ہوگا

اس گلستاں کی یہی ریت ہے اے شاخ گل

تو نے جس پھول کو پالا وہ پرایا ہوگا

ماں کی آغوش میں کل موت کی آغوش میں آج

ہم کو دنیا میں یہ دو وقت سہانے سے ملے

ایک کمی تھی تاج محل میں

میں نے تری تصویر لگا دی

اس نے یہ کہہ کر پھیر دیا خط

خون سے کیوں تحریر نہیں ہے

ہم ترستے ہی ترستے ہی ترستے ہی رہے

وہ فلانے سے فلانے سے فلانے سے ملے

تھوڑا سا عکس چاند کے پیکر میں ڈال دے

تو آ کے جان رات کے منظر میں ڈال دے

ادھر آ رقیب میرے میں تجھے گلے لگا لوں

مرا عشق بے مزا تھا تری دشمنی سے پہلے

سچ تو یہ ہے پھول کا دل بھی چھلنی ہے

ہنستا چہرہ ایک بہانا لگتا ہے

چلتے ہیں بچ کے شیخ و برہمن کے سائے سے

اپنا یہی عمل ہے برے آدمی کے ساتھ

آپ نے جھوٹا وعدہ کر کے

آج ہماری عمر بڑھا دی

تیرا چہرہ کتنا سہانا لگتا ہے

تیرے آگے چاند پرانا لگتا ہے

در و دیوار پہ شکلیں سی بنانے آئی

پھر یہ بارش مری تنہائی چرانے آئی

کیسے مانیں کہ انہیں بھول گیا تو اے کیفؔ

ان کے خط آج ہمیں تیرے سرہانے سے ملے

مت دیکھ کہ پھرتا ہوں ترے ہجر میں زندہ

یہ پوچھ کہ جینے میں مزہ ہے کہ نہیں ہے

کیفؔ پیدا کر سمندر کی طرح

وسعتیں خاموشیاں گہرائیاں

مجھے مسکرا مسکرا کر نہ دیکھو

مرے ساتھ تم بھی ہو رسوائیوں میں

یہ داڑھیاں یہ تلک دھاریاں نہیں چلتیں

ہمارے عہد میں مکاریاں نہیں چلتیں

کچھ محبت کو نہ تھا چین سے رکھنا منظور

اور کچھ ان کی عنایات نے جینے نہ دیا

کیفؔ پردیس میں مت یاد کرو اپنا مکاں

اب کے بارش نے اسے توڑ گرایا ہوگا

گل سے لپٹی ہوئی تتلی کو گرا کر دیکھو

آندھیو تم نے درختوں کو گرایا ہوگا

میں نے جب پہلے پہل اپنا وطن چھوڑا تھا

دور تک مجھ کو اک آواز بلانے آئی

جس دن مری جبیں کسی دہلیز پر جھکے

اس دن خدا شگاف مرے سر میں ڈال دے

وہ دن بھی ہائے کیا دن تھے جب اپنا بھی تعلق تھا

دشہرے سے دوالی سے بسنتوں سے بہاروں سے

سایہ ہے کم کھجور کے اونچے درخت کا

امید باندھئے نہ بڑے آدمی کے ساتھ

اک نیا زخم ملا ایک نئی عمر ملی

جب کسی شہر میں کچھ یار پرانے سے ملے

Recitation

بولیے