Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Khalilur Rahman Azmi's Photo'

خلیل الرحمن اعظمی

1927 - 1978 | علی گڑہ, انڈیا

جدید اردو تنقید کے بنیاد سازوں میں نمایاں

جدید اردو تنقید کے بنیاد سازوں میں نمایاں

خلیل الرحمن اعظمی کے اشعار

17.2K
Favorite

باعتبار

یوں تو مرنے کے لیے زہر سبھی پیتے ہیں

زندگی تیرے لیے زہر پیا ہے میں نے

نہ جانے کس کی ہمیں عمر بھر تلاش رہی

جسے قریب سے دیکھا وہ دوسرا نکلا

بھلا ہوا کہ کوئی اور مل گیا تم سا

وگرنہ ہم بھی کسی دن تمہیں بھلا دیتے

جانے کیوں اک خیال سا آیا

میں نہ ہوں گا تو کیا کمی ہوگی

ہوتی نہیں ہے یوں ہی ادا یہ نماز عشق

یاں شرط ہے کہ اپنے لہو سے وضو کرو

نکالے گئے اس کے معنی ہزار

عجب چیز تھی اک مری خامشی

مری نظر میں وہی موہنی سی مورت ہے

یہ رات ہجر کی ہے پھر بھی خوبصورت ہے

تری وفا میں ملی آرزوئے موت مجھے

جو موت مل گئی ہوتی تو کوئی بات بھی تھی

سنا رہا ہوں انہیں جھوٹ موٹ اک قصہ

کہ ایک شخص محبت میں کامیاب رہا

ہم نے تو خود کو بھی مٹا ڈالا

تم نے تو صرف بے وفائی کی

تم مجھے چاہو نہ چاہو لیکن اتنا تو کرو

جھوٹ ہی کہہ دو کہ جینے کا بہانہ مل سکے

ہزار طرح کی مے پی ہزار طرح کے زہر

نہ پیاس ہی بجھی اپنی نہ حوصلہ نکلا

دیکھنے والا کوئی ملے تو دل کے داغ دکھاؤں

یہ نگری اندھوں کی نگری کس کو کیا سمجھاؤں

یوں جی بہل گیا ہے تری یاد سے مگر

تیرا خیال تیرے برابر نہ ہو سکا

کوئی وقت بتلا کہ تجھ سے ملوں

مری دوڑتی بھاگتی زندگی

ہائے وہ لوگ جن کے آنے کا

حشر تک انتظار ہوتا ہے

یہ تمنا نہیں اب داد ہنر دے کوئی

آ کے مجھ کو مرے ہونے کی خبر دے کوئی

اب ان بیتے دنوں کو سوچ کر تو ایسا لگتا ہے

کہ خود اپنی محبت جیسے اک جھوٹی کہانی ہو

میرے دشمن نہ مجھ کو بھول سکے

ورنہ رکھتا ہے کون کس کو یاد

یہیں پر دفن کر دو اس گلی سے اب کہاں جاؤں

کہ میرے پاس جو کچھ تھا یہیں آ کر لٹایا ہے

دنیا داری تو کیا آتی دامن سینا سیکھ لیا

مرنے کے تھے لاکھ بہانے پھر بھی جینا سیکھ لیا

ہم پہ جو گزری ہے بس اس کو رقم کرتے ہیں

آپ بیتی کہو یا مرثیہ خوانی کہہ لو

ہم سا ملے کوئی تو کہیں اس سے حال دل

ہم بن گئے زمانے میں کیوں اپنی ہی مثال

عارض پہ تیرے میری محبت کی سرخیاں

میری جبیں پہ تیری وفا کا غرور ہے

ہمیں تو راس نہ آئی کسی کی محفل بھی

کوئی خدا کوئی ہم سایۂ خدا نکلا

ہم نے خود اپنے آپ زمانے کی سیر کی

ہم نے قبول کی نہ کسی رہنما کی شرط

نہیں اب کوئی خواب ایسا تری صورت جو دکھلائے

بچھڑ کر تجھ سے کس منزل پر ہم تنہا چلے آئے

ہنگامۂ حیات سے جاں بر نہ ہو سکا

یہ دل عجیب دل ہے کہ پتھر نہ ہو سکا

تمام یادیں مہک رہی ہیں ہر ایک غنچہ کھلا ہوا ہے

زمانہ بیتا مگر گماں ہے کہ آج ہی وہ جدا ہوا ہے

کوئی تو بات ہوگی کہ کرنے پڑے ہمیں

اپنے ہی خواب اپنے ہی قدموں سے پائمال

ازل سے تھا وہ ہمارے وجود کا حصہ

وہ ایک شخص کہ جو ہم پہ مہربان ہوا

تیرے نہ ہو سکے تو کسی کے نہ ہو سکے

یہ کاروبار شوق مکرر نہ ہو سکا

میں اپنے گھر کو بلندی پہ چڑھ کے کیا دیکھوں

عروج فن مری دہلیز پر اتار مجھے

تری صدا کا ہے صدیوں سے انتظار مجھے

مرے لہو کے سمندر ذرا پکار مجھے

یہ سچ ہے آج بھی ہے مجھے زندگی عزیز

لیکن جو تم ملو تو یہ سودا گراں نہیں

میں کہاں ہوں کچھ بتا دے زندگی اے زندگی!

پھر صدا اپنی سنا دے زندگی اے زندگی!

دنیا بھر کی رام کہانی کس کس ڈھنگ سے کہہ ڈالی

اپنی کہنے جب بیٹھے تو ایک ایک لفظ پگھلتا تھا

نہ چاہو تم تو ہر اک گام کتنی دیواریں

جو چاہو تم تو ملن کی ہزار صورت ہے

یہ اور بات کہ ترک وفا پہ مائل ہیں

تری وفا کی ہمیں آج بھی ضرورت ہے

میرؔ کا طرز اپنایا سب نے لیکن یہ انداز کہاں

اعظمیؔ صاحب آپ کی غزلیں سن سن کر سب حیراں ہیں

ہمارے بعد اس مرگ جواں کو کون سمجھے گا

ارادہ ہے کہ اپنا مرثیہ بھی آپ ہی لکھ لیں

زہر پی کر بھی یہاں کس کو ملی غم سے نجات

ختم ہوتا ہے کہیں سلسلۂ رقص حیات

اور تو کوئی بتاتا نہیں اس شہر کا حال

اشتہارات ہی دیوار کے پڑھ کر دیکھیں

کیوں ہر گھڑی زباں پہ ہو جرم و سزا کا ذکر

کیوں ہر عمل کی فکر میں خوف خدا کی شرط

آج ڈوبا ہوا خوشبو میں ہے پیراہن جاں

اے صبا کس نے یہ پوچھا ہے ترا نام و نشاں

لاکھ سادہ سہی تیری یہ جبیں کی تحریر

اس سے اکثر مرے افکار کو ملتی ہے زباں

تیری گلی سے چھٹ کے نہ جائے اماں ملی

اب کے تو میرا گھر بھی مرا گھر نہ ہو سکا

نگاہ مہرباں اٹھتی تو ہے سب کی طرف لیکن

نہیں واقف ابھی سب لوگ رمز آشنائی سے

بنے بنائے سے رستوں کا سلسلہ نکلا

نیا سفر بھی بہت ہی گریز پا نکلا

ہائے اس دست کرم ہی سے ملے جور و جفا

مجھ کو آغاز محبت ہی میں مر جانا تھا

Recitation

بولیے