Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دشمن پر اشعار

ہم عام طور پر دشمن سے

دشمنی کے جذبے سے ہی وابستہ ہوتے ہیں لیکن شاعری میں بات اس سے بہت آگے کی ہے ۔ ایک تخلیق کار دشمن اور دشمنی کو کس طور پر جیتا ہے ، اس کا دشمن اس کیلئے کس قسم کے دکھ اور کس قسم کی سہولتیں پیدا کرتا ہے اس کا ایک دلچسپ بیان ہمارا یہ شعری انتخاب ہے ۔ ہمارے اس انتخاب کو پڑھئے اور اپنے دشمنوں سے اپنے رشتوں پر از سرنو غور کیجئے ۔

مخالفت سے مری شخصیت سنورتی ہے

میں دشمنوں کا بڑا احترام کرتا ہوں

بشیر بدر

یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے

ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو

مرزا غالب

دوستی جب کسی سے کی جائے

دشمنوں کی بھی رائے لی جائے

راحت اندوری

دشمنوں سے پیار ہوتا جائے گا

دوستوں کو آزماتے جائیے

خمار بارہ بنکوی

دشمنوں کے ساتھ میرے دوست بھی آزاد ہیں

دیکھنا ہے کھینچتا ہے مجھ پہ پہلا تیر کون

پروین شاکر

دشمنوں نے جو دشمنی کی ہے

دوستوں نے بھی کیا کمی کی ہے

حبیب جالب

دوستوں سے اس قدر صدمے اٹھائے جان پر

دل سے دشمن کی عداوت کا گلہ جاتا رہا

حیدر علی آتش

دشمنوں کی جفا کا خوف نہیں

دوستوں کی وفا سے ڈرتے ہیں

حفیظ بنارسی

دوست ہر عیب چھپا لیتے ہیں

کوئی دشمن بھی ترا ہے کہ نہیں

باقی صدیقی

جو دوست ہیں وہ مانگتے ہیں صلح کی دعا

دشمن یہ چاہتے ہیں کہ آپس میں جنگ ہو

لالہ مادھو رام جوہر

بہاروں کی نظر میں پھول اور کانٹے برابر ہیں

محبت کیا کریں گے دوست دشمن دیکھنے والے

کلیم عاجز

اس کے دشمن ہیں بہت آدمی اچھا ہوگا

وہ بھی میری ہی طرح شہر میں تنہا ہوگا

ندا فاضلی

عجب حریف تھا میرے ہی ساتھ ڈوب گیا

مرے سفینے کو غرقاب دیکھنے کے لیے

عرفان صدیقی

دن ایک ستم ایک ستم رات کرو ہو

وہ دوست ہو دشمن کو بھی تم مات کرو ہو

کلیم عاجز

میں آ کر دشمنوں میں بس گیا ہوں

یہاں ہمدرد ہیں دو چار میرے

راحت اندوری

خدا کے واسطے موقع نہ دے شکایت کا

کہ دوستی کی طرح دشمنی نبھایا کر

ساقی فاروقی

موت ہی انسان کی دشمن نہیں

زندگی بھی جان لے کر جائے گی

عرش ملسیانی

دشمنوں سے پشیمان ہونا پڑا ہے

دوستوں کا خلوص آزمانے کے بعد

خمار بارہ بنکوی

دنیا میں ہم رہے تو کئی دن پہ اس طرح

دشمن کے گھر میں جیسے کوئی میہماں رہے

قائم چاندپوری

ترتیب دے رہا تھا میں فہرست دشمنان

یاروں نے اتنی بات پہ خنجر اٹھا لیا

فنا نظامی کانپوری

اے دوست تجھ کو رحم نہ آئے تو کیا کروں

دشمن بھی میرے حال پہ اب آب دیدہ ہے

لالہ مادھو رام جوہر

دشمن سے ایسے کون بھلا جیت پائے گا

جو دوستی کے بھیس میں چھپ کر دغا کرے

سلیم صدیقی

دوستی کی تم نے دشمن سے عجب تم دوست ہو

میں تمہاری دوستی میں مہرباں مارا گیا

امداد امام اثر

عرشؔ کس دوست کو اپنا سمجھوں

سب کے سب دوست ہیں دشمن کی طرف

عرش ملسیانی

یہ دل لگانے میں میں نے مزا اٹھایا ہے

ملا نہ دوست تو دشمن سے اتحاد کیا

حیدر علی آتش

سچ کہتے ہیں کہ نام محبت کا ہے بڑا

الفت جتا کے دوست کو دشمن بنا لیا

جوش لکھنوی

میرے دشمن نہ مجھ کو بھول سکے

ورنہ رکھتا ہے کون کس کو یاد

خلیل الرحمن اعظمی

دوستوں اور دشمنوں میں کس طرح تفریق ہو

دوستوں اور دشمنوں کی بے رخی ہے ایک سی

جان کاشمیری

اس کے ہونے سے ہوئی ہے اپنے ہونے کی خبر

کوئی دشمن سے زیادہ لائق عزت نہیں

غلام حسین ساجد

دشمن مجھ پر غالب بھی آ سکتا ہے

ہار مری مجبوری بھی ہو سکتی ہے

بیدل حیدری

مجھے دشمن سے اپنے عشق سا ہے

میں تنہا آدمی کی دوستی ہوں

باقر مہدی

آ گیا جوہرؔ عجب الٹا زمانہ کیا کہیں

دوست وہ کرتے ہیں باتیں جو عدو کرتے نہیں

لالہ مادھو رام جوہر

مرے حریف مری یکہ تازیوں پہ نثار

تمام عمر حلیفوں سے جنگ کی میں نے

جون ایلیا

کچھ سمجھ کر اس مۂ خوبی سے کی تھی دوستی

یہ نہ سمجھے تھے کہ دشمن آسماں ہو جائے گا

امداد امام اثر

میں اپنے دشمنوں کا کس قدر ممنون ہوں انورؔ

کہ ان کے شر سے کیا کیا خیر کے پہلو نکلتے ہیں

انور مسعود

کوئے جاناں میں نہ غیروں کی رسائی ہو جائے

اپنی جاگیر یہ یارب نہ پرائی ہو جائے

لالہ مادھو رام جوہر

آج کھلا دشمن کے پیچھے دشمن تھے

اور وہ لشکر اس لشکر کی اوٹ میں تھا

غلام حسین ساجد

حسن آئینہ فاش کرتا ہے

ایسے دشمن کو سنگسار کرو

شیخ ظہور الدین حاتم
بولیے