تمام
تعارف
غزل21
نظم10
شعر562
مزاحیہ1
ای-کتاب98
تصویری شاعری 30
آڈیو 1
ویڈیو 454
قطعہ6
قصہ59
بچوں کی کہانی78
لوری1
گیت2
پہیلی37
نامعلوم کے اشعار
آرام کیا کہ جس سے ہو تکلیف اور کو
پھینکو کبھی نہ پاؤں سے کانٹا نکال کے
ملنے کا وعدہ ان کے تو منہ سے نکل گیا
پوچھی جگہ جو میں نے کہا ہنس کے خواب میں
حدود کوچۂ محبوب ہیں وہیں سے شروع
جہاں سے پڑنے لگیں پاؤں ڈگمگاتے ہوئے
کھڑا ہوں دیر سے میں عرض مدعا کے لیے
ادھر بھی ایک نظر کیجیے خدا کے لیے
کیا تھا دن کا وعدہ رات کو آیا تو کیا شکوہ
اسے بھولا نہیں کہتے جو بھولا گھر میں شام آیا
ہر دم یہی دعا ہے خدا کی جناب میں
آ جائے یار خود مرے خط کے جواب میں
پسینہ موت کا ماتھے پے آیا آئنہ لاؤ
ہم اپنی زندگی کی آخری تصویر دیکھیں گے
وہ ہزار دشمن جاں سہی مجھے پھر بھی غیر عزیز ہے
جسے خاک پا تری چھو گئی وہ برا بھی ہو تو برا نہیں
وہ شاخ گل پہ رہیں یا کسی کی میت پر
چمن کے پھول تو عادی ہیں مسکرانے کے
مجھے بھولنا نہیں شام ہجر کے شور میں
میں چراغ ہوں تو مجھے جلا کہ بھی دیکھنا
یہ ایک لمحہ جسے ہم نیا سمجھتے ہیں
خدا کرے کہ نئے موسموں کے ساتھ آئے
کیا قیامت ہے کہ عارض ان کے نیلے پڑ گئے
ہم نے تو بوسہ لیا تھا خواب میں تصویر کا
سجدہ ہو بے خلوص تو سجدہ بھی ہے گناہ
لغزش میں ہو خلوص تو لغزش نماز ہے
مدت سے کوئی شب نہیں گزری ہے خیر سے
مدت سے شب بخیر نہیں کہہ رہا کوئی
عیال و مال نے روکا ہے دم کو آنکھوں میں
یہ ٹھگ ہٹیں تو مسافر کو راستہ مل جائے
اس سے بڑھ کر اور کیا ہے سادہ لوحی عشق کی
آپ نے وعدہ کیا اور ہم کو باور ہو گیا
وہ اتفاق سے نزدیک آئے ہیں لیکن
یہ اتفاق ہوا ہے بڑی دعاؤں کے بعد
تم اپنے دوستوں کے ذرا نام تو بتا دو
میں اپنے دشمنوں کی تعداد تو سمجھ لوں
ایک بوسے کے طلب گار ہیں ہم
اور مانگیں تو گنہ گار ہیں ہم
بیٹھے بیٹھے مجھے آیا ہے گناہوں کا خیال
شاید تری رحمت نے مجھے یاد کیا ہے
لے اڑی گھونگھٹ کے اندر سے نگاہ مست ہوش
آج ساقی نے پلائی ہے ہمیں چھانی ہوئی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
دیکھا ہلال عید تو تم یاد آ گئے
اس محویت میں عید ہماری گزر گئی
فیض و کمال و صدق و صفا اور حسن و عشق
چھ لفظ اس کے مرنے پہ بے پا و سر ہوئے
آسرا دے کے مرے اشک نہ چھین
یہی لے دے کے بچا ہے مجھ میں
عمر بھر چھانی ہے ان ہاتھوں سے خاک مے کدہ
ہاتھ اب آئے ہیں کچھ آداب مے خانہ ہمیں
ہوا دکھوں کی جب آئی کبھی خزاں کی طرح
مجھے چھپا لیا مٹی نے میری ماں کی طرح
جس بزم میں ساغر ہو نہ صہبا ہو نہ خم ہو
رندوں کو تسلی ہے کہ اس بزم میں تم ہو
ارماں تمام عمر کے سینے میں دفن ہیں
ہم چلتے پھرتے لوگ مزاروں سے کم نہیں
گزری سیاہ کاری میں یا رب تمام عمر
آدھی شباب میں کٹی آدھی خضاب میں
خط کے پرزے آئے ہیں قاصد کا سر تصویر غیر
یہ ہے بھیجا اس ستم گر نے مرے خط کا جواب
آتا ہے یہاں سب کو بلندی سے گرانا
وہ لوگ کہاں ہیں کہ جو گرتوں کو اٹھائیں
کچھ خوشیاں کچھ آنسو دے کر ٹال گیا
جیون کا اک اور سنہرا سال گیا
محفل میں کر رہے ہیں رقیبوں کو وہ سلام
وعلیکم السلام کیے جا رہا ہوں میں
شہر میں مزدور جیسا در بدر کوئی نہیں
جس نے سب کے گھر بنائے اوس کا گھر کوئی نہیں
میں نے سامان سفر باندھ کے پھر کھول دیا
ایک تصویر نے دیکھا مجھے الماری سے
ہچکیاں آتی ہیں کیوں اے دل ناشاد مجھے
شاید اس شوخ نے بھولے سے کیا یاد مجھے
شاخیں رہیں تو پھول بھی پتے بھی آئیں گے
یہ دن اگر برے ہیں تو اچھے بھی آئیں گے
چہرے کا نصف حصہ زیر نقاب کر کے
کرتے ہیں حسن والے دیدار میں ملاوٹ
ہر گلی اچھی لگی ہر ایک گھر اچھا لگا
وہ جو آیا شہر میں تو شہر بھر اچھا لگا
منزل تو میرے اپنے ارادوں کے ساتھ ہے
رہبر ملے نہ اب کوئی نقش قدم ملے
باغ کس کام کا جس میں گل و شمشاد نہ ہو
لطف دیتی نہیں بے شیشہ و ساغر محفل
وہ سامنے ہیں مگر تشنگی نہیں جاتی
یہ کیا ستم ہے کہ دریا سراب جیسا ہے
اس کی عادت ہے میرے بال بگاڑے رکھنا
اس کی کوشش ہے کسی اور کو اچھا نہ لگوں
میں پریشاں تھا پریشاں ہوں نئی بات نہیں
آج تو وہ بھی پریشاں ہیں خدا خیر کرے
پھر یوں ہوا کہ صبر کی انگلی پکڑ کے ہم
اتنا چلے کہ راستے حیران رہ گئے