Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

نامعلوم

نامعلوم کے اشعار

171.3K
Favorite

باعتبار

آرام کیا کہ جس سے ہو تکلیف اور کو

پھینکو کبھی نہ پاؤں سے کانٹا نکال کے

ملنے کا وعدہ ان کے تو منہ سے نکل گیا

پوچھی جگہ جو میں نے کہا ہنس کے خواب میں

حدود کوچۂ محبوب ہیں وہیں سے شروع

جہاں سے پڑنے لگیں پاؤں ڈگمگاتے ہوئے

جو کیا میں نے وہ سب کچھ تھا برا

آپ نے جو کچھ کیا اچھا کیا

کھڑا ہوں دیر سے میں عرض مدعا کے لیے

ادھر بھی ایک نظر کیجیے خدا کے لیے

کیا تھا دن کا وعدہ رات کو آیا تو کیا شکوہ

اسے بھولا نہیں کہتے جو بھولا گھر میں شام آیا

ہر دم یہی دعا ہے خدا کی جناب میں

آ جائے یار خود مرے خط کے جواب میں

پسینہ موت کا ماتھے پے آیا آئنہ لاؤ

ہم اپنی زندگی کی آخری تصویر دیکھیں گے

وہ ہزار دشمن جاں سہی مجھے پھر بھی غیر عزیز ہے

جسے خاک پا تری چھو گئی وہ برا بھی ہو تو برا نہیں

وہ شاخ گل پہ رہیں یا کسی کی میت پر

چمن کے پھول تو عادی ہیں مسکرانے کے

مجھے بھولنا نہیں شام ہجر کے شور میں

میں چراغ ہوں تو مجھے جلا کہ بھی دیکھنا

یہ ایک لمحہ جسے ہم نیا سمجھتے ہیں

خدا کرے کہ نئے موسموں کے ساتھ آئے

کیا قیامت ہے کہ عارض ان کے نیلے پڑ گئے

ہم نے تو بوسہ لیا تھا خواب میں تصویر کا

سجدہ ہو بے خلوص تو سجدہ بھی ہے گناہ

لغزش میں ہو خلوص تو لغزش نماز ہے

مدت سے کوئی شب نہیں گزری ہے خیر سے

مدت سے شب بخیر نہیں کہہ رہا کوئی

عیال و مال نے روکا ہے دم کو آنکھوں میں

یہ ٹھگ ہٹیں تو مسافر کو راستہ مل جائے

اس سے بڑھ کر اور کیا ہے سادہ لوحی عشق کی

آپ نے وعدہ کیا اور ہم کو باور ہو گیا

وہ اتفاق سے نزدیک آئے ہیں لیکن

یہ اتفاق ہوا ہے بڑی دعاؤں کے بعد

تم اپنے دوستوں کے ذرا نام تو بتا دو

میں اپنے دشمنوں کی تعداد تو سمجھ لوں

ایک بوسے کے طلب گار ہیں ہم

اور مانگیں تو گنہ گار ہیں ہم

بیٹھے بیٹھے مجھے آیا ہے گناہوں کا خیال

شاید تری رحمت نے مجھے یاد کیا ہے

لے اڑی گھونگھٹ کے اندر سے نگاہ مست ہوش

آج ساقی نے پلائی ہے ہمیں چھانی ہوئی

دیکھا ہلال عید تو تم یاد آ گئے

اس محویت میں عید ہماری گزر گئی

فیض و کمال و صدق و صفا اور حسن و عشق

چھ لفظ اس کے مرنے پہ بے پا و سر ہوئے

آسرا دے کے مرے اشک نہ چھین

یہی لے دے کے بچا ہے مجھ میں

عمر بھر چھانی ہے ان ہاتھوں سے خاک مے کدہ

ہاتھ اب آئے ہیں کچھ آداب مے خانہ ہمیں

ہوا دکھوں کی جب آئی کبھی خزاں کی طرح

مجھے چھپا لیا مٹی نے میری ماں کی طرح

جس بزم میں ساغر ہو نہ صہبا ہو نہ خم ہو

رندوں کو تسلی ہے کہ اس بزم میں تم ہو

ارماں تمام عمر کے سینے میں دفن ہیں

ہم چلتے پھرتے لوگ مزاروں سے کم نہیں

گزری سیاہ کاری میں یا رب تمام عمر

آدھی شباب میں کٹی آدھی خضاب میں

خط کے پرزے آئے ہیں قاصد کا سر تصویر غیر

یہ ہے بھیجا اس ستم گر نے مرے خط کا جواب

ترا ملنا ترا نہیں ملنا

اور جنت ہے کیا جہنم کیا

آتا ہے یہاں سب کو بلندی سے گرانا

وہ لوگ کہاں ہیں کہ جو گرتوں کو اٹھائیں

کچھ خوشیاں کچھ آنسو دے کر ٹال گیا

جیون کا اک اور سنہرا سال گیا

محفل میں کر رہے ہیں رقیبوں کو وہ سلام

وعلیکم السلام کیے جا رہا ہوں میں

شہر میں مزدور جیسا در بدر کوئی نہیں

جس نے سب کے گھر بنائے اوس کا گھر کوئی نہیں

میں نے سامان سفر باندھ کے پھر کھول دیا

ایک تصویر نے دیکھا مجھے الماری سے

ہچکیاں آتی ہیں کیوں اے دل ناشاد مجھے

شاید اس شوخ نے بھولے سے کیا یاد مجھے

شاخیں رہیں تو پھول بھی پتے بھی آئیں گے

یہ دن اگر برے ہیں تو اچھے بھی آئیں گے

چہرے کا نصف حصہ زیر نقاب کر کے

کرتے ہیں حسن والے دیدار میں ملاوٹ

ہر گلی اچھی لگی ہر ایک گھر اچھا لگا

وہ جو آیا شہر میں تو شہر بھر اچھا لگا

بہن کا پیار جدائی سے کم نہیں ہوتا

اگر وہ دور بھی جائے تو غم نہیں ہوتا

منزل تو میرے اپنے ارادوں کے ساتھ ہے

رہبر ملے نہ اب کوئی نقش قدم ملے

باغ کس کام کا جس میں گل و شمشاد نہ ہو

لطف دیتی نہیں بے شیشہ و ساغر محفل

وہ سامنے ہیں مگر تشنگی نہیں جاتی

یہ کیا ستم ہے کہ دریا سراب جیسا ہے

ڈال دو سایہ اپنے آنچل کا

ناتواں ہوں کفن بھی ہو ہلکا

اس کی عادت ہے میرے بال بگاڑے رکھنا

اس کی کوشش ہے کسی اور کو اچھا نہ لگوں

میں پریشاں تھا پریشاں ہوں نئی بات نہیں

آج تو وہ بھی پریشاں ہیں خدا خیر کرے

پھر یوں ہوا کہ صبر کی انگلی پکڑ کے ہم

اتنا چلے کہ راستے حیران رہ گئے

رہبر بھی یہ ہمدم بھی یہ غم خوار ہمارے

استاد یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے

Recitation

بولیے