بام پر اشعار

ہم ہی ان کو بام پہ لائے اور ہمیں محروم رہے

پردہ ہمارے نام سے اٹھا آنکھ لڑائی لوگوں نے

بہادر شاہ ظفر

قسمت تو دیکھ ٹوٹی ہے جا کر کہاں کمند

کچھ دور اپنے ہاتھ سے جب بام رہ گیا

قائم چاندپوری

اے کاش ہماری قسمت میں ایسی بھی کوئی شام آ جائے

اک چاند فلک پر نکلا ہو اک چاند سر بام آ جائے

انور مرزاپوری

اب خاک اڑ رہی ہے یہاں انتظار کی

اے دل یہ بام و در کسی جان جہاں کے تھے

جون ایلیا

آنکھوں میں دمک اٹھی ہے تصویر در و بام

یہ کون گیا میرے برابر سے نکل کر

ثروت حسین

اک برف سی جمی رہے دیوار و بام پر

اک آگ میرے کمرے کے اندر لگی رہے

سالم سلیم

اک داستان اب بھی سناتے ہیں فرش و بام

وہ کون تھی جو رقص کے عالم میں مر گئی

ثروت حسین

احباب مجھ سے قطع تعلق کریں جگرؔ

اب آفتاب زیست لب بام آ گیا

جگر مراد آبادی

جل اٹھے بزم غیر کے در و بام

جب بھی ہم خانماں خراب آئے

فیض احمد فیض

ایک انگڑائی سے سارے شہر کو نیند آ گئی

یہ تماشا میں نے دیکھا بام پر ہوتا ہوا

پریم کمار نظر

اللہ رے ان کے حسن کی معجز نمائیاں

جس بام پر وہ آئیں وہی کوہ طور ہو

نوح ناروی

جب سفر سے لوٹ کر آئے تو کتنا دکھ ہوا

اس پرانے بام پر وہ صورت زیبا نہ تھی

منیر نیازی

میں جانتا ہوں مکینوں کی خامشی کا سبب

مکاں سے پہلے در و بام سے ملا ہوں میں

سلیم کوثر

جدا تھی بام سے دیوار در اکیلا تھا

مکیں تھے خود میں مگن اور گھر اکیلا تھا

جاوید شاہین

مجھ کو بھی جاگنے کی اذیت سے دے نجات

اے رات اب تو گھر کے در و بام سو گئے

اظہر عنایتی

مجھے رہنے کو وہ ملا ہے گھر کہ جو آفتوں کی ہے رہ گزر

تمہیں خاکساروں کی کیا خبر کبھی نیچے اترے ہو بام سے

آرزو لکھنوی

وہ صبح کو اس ڈر سے نہیں بام پر آتا

نامہ نہ کوئی باندھ دے سورج کی کرن میں

منور خان غافل

ہم لب گور ہو گئے ظالم

تو لب بام کیوں نہیں آتا

مرزا آسمان جاہ انجم

کوئی بھی سجنی کسی بھی ساجن کی منتظر ہے نہ مضطرب ہے

تمام بام اور در بجھے ہیں کہیں بھی روشن دیا نہیں ہے

انور علیمی

Jashn-e-Rekhta | 2-3-4 December 2022 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate, New Delhi

GET YOUR FREE PASS
بولیے