نہ جانے کیسی نگاہوں سے موت نے دیکھا
ہوئی ہے نیند سے بیدار زندگی کہ میں ہوں
محفل عشق میں وہ نازش دوراں آیا
اے گدا خواب سے بیدار کہ سلطاں آیا
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
جو سوتے ہیں نہیں کچھ ذکر ان کا وہ تو سوتے ہیں
مگر جو جاگتے ہیں ان میں بھی بیدار کتنے ہیں
-
موضوع : سوال
محو لقا جو ہیں ملکوتی خصال ہیں
بیدار ہو کے بھی نظر آتے ہیں خواب میں
وہ شور ہوتا ہے خوابوں میں آفتابؔ حسینؔ
کہ خود کو نیند سے بیدار کرنے لگتا ہوں
یار کو میں نے مجھے یار نے سونے نہ دیا
رات بھر طالع بیدار نے سونے نہ دیا
یہ روز و شب یہ صبح و شام یہ بستی یہ ویرانہ
سبھی بیدار ہیں انساں اگر بیدار ہو جائے
کچھ خبر ہے تجھے او چین سے سونے والے
رات بھر کون تری یاد میں بیدار رہا
-
موضوعات : جدائیاور 2 مزید
ہجر اک وقفۂ بیدار ہے دو نیندوں میں
وصل اک خواب ہے جس کی کوئی تعبیر نہیں
-
موضوعات : وصالاور 1 مزید
اب جس دل خوابیدہ کی کھلتی نہیں آنکھیں
راتوں کو سرہانے مرے بے دار یہی تھا
وصل کی رات خوشی نے مجھے سونے نہ دیا
میں بھی بے دار رہا طالع بے دار کے ساتھ
کوئی تو رات کو دیکھے گا جواں ہوتے ہوئے
اس بھرے شہر میں بے دار کوئی تو ہوگا