بے قراری پر اشعار
عام زندگی میں بے قراری
کی وجہیں بہت سی ہوسکتی ہیں لیکن شاعری میں بےقراری کی جن کیفیتوں کا اظہارہوا ہے ان کا تعلق عشق میں حاصل ہونے والی بے قراری سے ہے ۔ ان کیفیتوں سے ہم سب گزرتے ہیں اورروز گزرتے ہیں لیکن انہیں زبان نہیں دے سکتے ۔ شاعری ایک معنی میں احساس کے انہیں نامعلوم علاقوں کی لفظی تجسیم کا عمل ہے ۔
ہمیں بھی نیند آ جائے گی ہم بھی سو ہی جائیں گے
ابھی کچھ بے قراری ہے ستارو تم تو سو جاؤ
-
موضوعات : بے_چینیاور 6 مزید
آ کہ تجھ بن اس طرح اے دوست گھبراتا ہوں میں
جیسے ہر شے میں کسی شے کی کمی پاتا ہوں میں
-
موضوعات : بے_چینیاور 2 مزید
ہم کو نہ مل سکا تو فقط اک سکون دل
اے زندگی وگرنہ زمانے میں کیا نہ تھا
سنا ہے تیری محفل میں سکون دل بھی ملتا ہے
مگر ہم جب تری محفل سے آئے بے قرار آئے
درد الفت کا نہ ہو تو زندگی کا کیا مزا
آہ و زاری زندگی ہے بے قراری زندگی
-
موضوعات : آہاور 2 مزید
تڑپ تڑپ کے تمنا میں کروٹیں بدلیں
نہ پایا دل نے ہمارے قرار ساری رات
نہ کر سوداؔ تو شکوہ ہم سے دل کی بے قراری کا
محبت کس کو دیتی ہے میاں آرام دنیا میں
تجھ کو پا کر بھی نہ کم ہو سکی بے تابئ دل
اتنا آسان ترے عشق کا غم تھا ہی نہیں
اک چبھن ہے کہ جو بے چین کیے رہتی ہے
ایسا لگتا ہے کہ کچھ ٹوٹ گیا ہے مجھ میں
سمجھا لیا فریب سے مجھ کو تو آپ نے
دل سے تو پوچھ لیجیے کیوں بے قرار ہے
قول آبروؔ کا تھا کہ نہ جاؤں گا اس گلی
ہو کر کے بے قرار دیکھو آج پھر گیا
جو چراغ سارے بجھا چکے انہیں انتظار کہاں رہا
یہ سکوں کا دور شدید ہے کوئی بے قرار کہاں رہا
دل کو خدا کی یاد تلے بھی دبا چکا
کم بخت پھر بھی چین نہ پائے تو کیا کروں
-
موضوعات : بے_چینیاور 1 مزید
کسی طرح تو گھٹے دل کی بے قراری بھی
چلو وہ چشم نہیں کم سے کم شراب تو ہو
-
موضوعات : دلاور 1 مزید
دل پیار کی نظر کے لیے بے قرار ہے
اک تیر اس طرف بھی یہ تازہ شکار ہے
نہیں علاج غم ہجر یار کیا کیجے
تڑپ رہا ہے دل بے قرار کیا کیجے
جو بھی ہے دل میں آپ کے کھل کر بتائیے ہمیں
کہتے ہیں آپ ٹھیک ہیں رہتے ہیں بے قرار سے
-
موضوع : پریشانی
دل کو اس طرح دیکھنے والے
دل اگر بے قرار ہو جائے
-
موضوع : دل
شب فراق کچھ ایسا خیال یار رہا
کہ رات بھر دل غم دیدہ بے قرار رہا
بے قراری تھی سب امید ملاقات کے ساتھ
اب وہ اگلی سی درازی شب ہجراں میں نہیں
ہر ایک سانس مجھے کھینچتی ہے اس کی طرف
یہ کون میرے لیے بے قرار رہتا ہے
تمہارے عاشقوں میں بے قراری کیا ہی پھیلی ہے
جدھر دیکھو جگر تھامے ہوئے دو چار بیٹھے ہیں
جانے دے صبر و قرار و ہوش کو
تو کہاں اے بے قراری جائے گی
رات جاتی ہے مان لو کہنا
دیر سے دل ہے بے قرار اپنا