Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سوشل ڈسٹینسنگ شاعری پر اشعار

راستے ہیں کھلے ہوئے سارے

پھر بھی یہ زندگی رکی ہوئی ہے

ظفر اقبال

اب تو مشکل ہے کسی اور کا ہونا مرے دوست

تو مجھے ایسے ہوا جیسے کرونا مرے دوست

ادریس بابر

وصل کو موقوف کرنا پڑ گیا ہے چند روز

اب مجھے ملنے نہ آنا اب کوئی شکوہ نہیں

نامعلوم

افسوس یہ وبا کے دنوں کی محبتیں

اک دوسرے سے ہاتھ ملانے سے بھی گئے

سجاد بلوچ

اک بلا کوکتی ہے گلیوں میں

سب سمٹ کر گھروں میں بیٹھ رہیں

محمد جاوید انور

آپ ہی آپ دیے بجھتے چلے جاتے ہیں

اور آسیب دکھائی بھی نہیں دیتا ہے

رضی اختر شوق

دل تو پہلے ہی جدا تھے یہاں بستی والو

کیا قیامت ہے کہ اب ہاتھ ملانے سے گئے

ایمان قیصرانی

اب نہیں کوئی بات خطرے کی

اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے

جون ایلیا

ٹینشن سے مرے گا نہ کرونے سے مرے گا

اک شخص ترے پاس نہ ہونے سے مرے گا

ادریس بابر

ایک ہی شہر میں رہنا ہے مگر ملنا نہیں

دیکھتے ہیں یہ اذیت بھی گوارہ کر کے

اعتبار ساجد

ہر ایک جسم میں موجود ہشت پا کی طرح

وبا کا خوف ہے خود بھی کسی وبا کی طرح

سعود عثمانی

ایسی ترقی پر تو رونا بنتا ہے

جس میں دہشت گرد کرونا بنتا ہے

اسحاق وردگ

کیسا چمن کہ ہم سے اسیروں کو منع ہے

چاک قفس سے باغ کی دیوار دیکھنا

میر تقی میر

گھر میں خود کو قید تو میں نے آج کیا ہے

تب بھی تنہا تھا جب محفل محفل تھا میں

شارق کیفی

میں وہ محروم عنایت ہوں کہ جس نے تجھ سے

ملنا چاہا تو بچھڑنے کی وبا پھوٹ پڑی

نعیم ضرار احمد

بازار ہیں خاموش تو گلیوں پہ ہے سکتہ

اب شہر میں تنہائی کا ڈر بول رہا ہے

اسحاق وردگ

کوئی دوا بھی نہیں ہے یہی تو رونا ہے

صد احتیاط کہ پھیلا ہوا کرونا ہے

وجیہ ثانی

یہ جو ملاتے پھرتے ہو تم ہر کسی سے ہاتھ

ایسا نہ ہو کہ دھونا پڑے زندگی سے ہاتھ

جاوید صبا

بھوک سے یا وبا سے مرنا ہے

فیصلہ آدمی کو کرنا ہے

عشرت آفریں

اکیلا ہو رہ دنیا میں گر چاہے بہت جینا

ہوئی ہے فیض تنہائی سے عمر خضر طولانی

محمد رفیع سودا

شام ہوتے ہی کھلی سڑکوں کی یاد آتی ہے

سوچتا روز ہوں میں گھر سے نہیں نکلوں گا

شہریار

شہر گم صم راستے سنسان گھر خاموش ہیں

کیا بلا اتری ہے کیوں دیوار و در خاموش ہیں

اظہرنقوی

ممکن ہے یہی دل کے ملانے کا سبب ہو

ی رت جو ہمیں ہاتھ ملانے نہیں دیتی

ارشد جمال صارم

شہر جاں میں وباؤں کا اک دور تھا میں ادائے تنفس میں کمزور تھا

زندگی پھر مری یوں بچائی گئی میری شہ رگ ہٹا دی گئی یا اخی

پلو مشرا

کچھ روز نصیر آؤ چلو گھر میں رہا جائے

لوگوں کو یہ شکوہ ہے کہ گھر پر نہیں ملتا

نصیر ترابی

موت آ جائے وبا میں یہ الگ بات مگر

ہم ترے ہجر میں ناغہ تو نہیں کر سکتے

صابر آفاق

اپنی مجبوری کو ہم دیوار و در کہنے لگے

قید کا ساماں کیا اور اس کو گھر کہنے لگے

شبنم رومانی

مجھے یہ سارے مسیحا عزیز ہیں لیکن

یہ کہہ رہے ہیں کہ میں تم سے فاصلہ رکھوں

سعود عثمانی

ان دوریوں نے اور بڑھا دی ہیں قربتیں

سب فاصلے وبا کی طوالت سے مٹ گئے

اعتبار ساجد

تھکنا بھی لازمی تھا کچھ کام کرتے کرتے

کچھ اور تھک گیا ہوں آرام کرتے کرتے

ظفر اقبال

جان ہے تو جہان ہے دل ہے تو آرزو بھی ہے

عشق بھی ہو رہے گا پھر جان ابھی بچایئے

سعود عثمانی

یہ کہہ کے اس نے مجھے مخمصے میں ڈال دیا

ملاؤ ہاتھ اگر واقعی محبت ہے

جاوید صبا

گھر رہیے کہ باہر ہے اک رقص بلاؤں کا

اس موسم وحشت میں نادان نکلتے ہیں

فراست رضوی

جہاں جو تھا وہیں رہنا تھا اس کو

مگر یہ لوگ ہجرت کر رہے ہیں

لیاقت جعفری

قربتیں لاکھ خوبصورت ہوں

دوریوں میں بھی دل کشی ہے ابھی

احمد فراز

گھوم پھر کر نہ قتل عام کرے

جو جہاں ہے وہیں قیام کرے

شبیر نازش

کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے

یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو

بشیر بدر

حال پوچھا نہ کرے ہاتھ ملایا نہ کرے

میں اسی دھوپ میں خوش ہوں کوئی سایہ نہ کرے

کاشف حسین غائر
بولیے