اب تو مشکل ہے کسی اور کا ہونا مرے دوست
تو مجھے ایسے ہوا جیسے کرونا مرے دوست
اک بلا کوکتی ہے گلیوں میں
سب سمٹ کر گھروں میں بیٹھ رہیں
آپ ہی آپ دیے بجھتے چلے جاتے ہیں
اور آسیب دکھائی بھی نہیں دیتا ہے
دل تو پہلے ہی جدا تھے یہاں بستی والو
کیا قیامت ہے کہ اب ہاتھ ملانے سے گئے
اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے
ٹینشن سے مرے گا نہ کرونے سے مرے گا
اک شخص ترے پاس نہ ہونے سے مرے گا
ایک ہی شہر میں رہنا ہے مگر ملنا نہیں
دیکھتے ہیں یہ اذیت بھی گوارہ کر کے
ہر ایک جسم میں موجود ہشت پا کی طرح
وبا کا خوف ہے خود بھی کسی وبا کی طرح
ایسی ترقی پر تو رونا بنتا ہے
جس میں دہشت گرد کرونا بنتا ہے
کیسا چمن کہ ہم سے اسیروں کو منع ہے
چاک قفس سے باغ کی دیوار دیکھنا
گھر میں خود کو قید تو میں نے آج کیا ہے
تب بھی تنہا تھا جب محفل محفل تھا میں
میں وہ محروم عنایت ہوں کہ جس نے تجھ سے
ملنا چاہا تو بچھڑنے کی وبا پھوٹ پڑی
بازار ہیں خاموش تو گلیوں پہ ہے سکتہ
اب شہر میں تنہائی کا ڈر بول رہا ہے
یہ جو ملاتے پھرتے ہو تم ہر کسی سے ہاتھ
ایسا نہ ہو کہ دھونا پڑے زندگی سے ہاتھ
بھوک سے یا وبا سے مرنا ہے
فیصلہ آدمی کو کرنا ہے
اکیلا ہو رہ دنیا میں گر چاہے بہت جینا
ہوئی ہے فیض تنہائی سے عمر خضر طولانی
شہر گم صم راستے سنسان گھر خاموش ہیں
کیا بلا اتری ہے کیوں دیوار و در خاموش ہیں
ممکن ہے یہی دل کے ملانے کا سبب ہو
ی رت جو ہمیں ہاتھ ملانے نہیں دیتی
شہر جاں میں وباؤں کا اک دور تھا میں ادائے تنفس میں کمزور تھا
زندگی پھر مری یوں بچائی گئی میری شہ رگ ہٹا دی گئی یا اخی
کچھ روز نصیر آؤ چلو گھر میں رہا جائے
لوگوں کو یہ شکوہ ہے کہ گھر پر نہیں ملتا
موت آ جائے وبا میں یہ الگ بات مگر
ہم ترے ہجر میں ناغہ تو نہیں کر سکتے
اپنی مجبوری کو ہم دیوار و در کہنے لگے
قید کا ساماں کیا اور اس کو گھر کہنے لگے
مجھے یہ سارے مسیحا عزیز ہیں لیکن
یہ کہہ رہے ہیں کہ میں تم سے فاصلہ رکھوں
ان دوریوں نے اور بڑھا دی ہیں قربتیں
سب فاصلے وبا کی طوالت سے مٹ گئے
تھکنا بھی لازمی تھا کچھ کام کرتے کرتے
کچھ اور تھک گیا ہوں آرام کرتے کرتے
جان ہے تو جہان ہے دل ہے تو آرزو بھی ہے
عشق بھی ہو رہے گا پھر جان ابھی بچایئے
گھر رہیے کہ باہر ہے اک رقص بلاؤں کا
اس موسم وحشت میں نادان نکلتے ہیں
جہاں جو تھا وہیں رہنا تھا اس کو
مگر یہ لوگ ہجرت کر رہے ہیں
کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو
-
موضوعات : فاصلہاور 1 مزید
حال پوچھا نہ کرے ہاتھ ملایا نہ کرے
میں اسی دھوپ میں خوش ہوں کوئی سایہ نہ کرے