Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

زندگی پر اشعار

ایک تخلیق کار زندگی

کو جتنے زاویوں اور جتنی صورتوں میں دیکھتا ہے وہ ایک عام شخص کے دائرے سے باہر ہوتا ہے ۔ زندگی کے حسن اور اس کی بد صورتی کا جو ایک گہرا تجزیہ شعر وادب میں ملتا ہے اس کا اندازہ ہمارے اس چھوٹے سے انتخاب سےلگایا جاسکتا ہے ۔ زندگی اتنی سادہ نہیں جتنی بظاہر نظر آتی ہے اس میں بہت پیچ ہیں اور اس کے رنگ بہت متنوع ہیں ۔ وہ بہت ہمدرد بھی ہے اور اپنی بعض صورتوں میں بہت سفاک بھی ۔ زندگی کی اس کہانی کو آپ ریختہ پر پڑھئے ۔

زندگی سے تو خیر شکوہ تھا

مدتوں موت نے بھی ترسایا

نریش کمار شاد

زندگی اک حادثہ ہے اور کیسا حادثہ

موت سے بھی ختم جس کا سلسلہ ہوتا نہیں

جگر مراد آبادی

ہوش والوں کو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہے

عشق کیجے پھر سمجھئے زندگی کیا چیز ہے

ندا فاضلی

تلخیاں اس میں بہت کچھ ہیں مزا کچھ بھی نہیں

زندگی درد محبت کے سوا کچھ بھی نہیں

کلیم عاجز

وہ جنگلوں میں درختوں پہ کودتے پھرنا

برا بہت تھا مگر آج سے تو بہتر تھا

محمد علوی

اب مری کوئی زندگی ہی نہیں

اب بھی تم میری زندگی ہو کیا

جون ایلیا

ہے عجیب شہر کی زندگی نہ سفر رہا نہ قیام ہے

کہیں کاروبار سی دوپہر کہیں بد مزاج سی شام ہے

بشیر بدر

گنوائی کس کی تمنا میں زندگی میں نے

وہ کون ہے جسے دیکھا نہیں کبھی میں نے

جون ایلیا

آئے ٹھہرے اور روانہ ہو گئے

زندگی کیا ہے، سفر کی بات ہے

حیدر علی جعفری

ہم کو بھی خوش نما نظر آئی ہے زندگی

جیسے سراب دور سے دریا دکھائی دے

محشر بدایونی

زندگی! تجھ سا منافق بھی کوئی کیا ہوگا

تیرا شہکار ہوں اور تیرا ہی مارا ہوا ہوں

احمد فرید

مانگی تھی ایک بار دعا ہم نے موت کی

شرمندہ آج تک ہیں میاں زندگی سے ہم

نامعلوم

اہل دل کے واسطے پیغام ہو کر رہ گئی

زندگی مجبوریوں کا نام ہو کر رہ گئی

گنیش بہاری طرز

موت سے پہلے جہاں میں چند سانسوں کا عذاب

زندگی جو قرض تیرا تھا ادا کر آئے ہیں

حیدر قریشی

زندگی جب عذاب ہوتی ہے

عاشقی کامیاب ہوتی ہے

دشینت کمار

زندگی پھیلی ہوئی تھی شام ہجراں کی طرح

کس کو اتنا حوصلہ تھا کون جی کر دیکھتا

احمد فراز

زندگی محو خود آرائی تھی

آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا ہم نے

روش صدیقی

سیر کر دنیا کی غافل زندگانی پھر کہاں

زندگی گر کچھ رہی تو یہ جوانی پھر کہاں

خواجہ میر درد

اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا

زندگی کاہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا

فانی بدایونی

زندگی کی بساط پر باقیؔ

موت کی ایک چال ہیں ہم لوگ

باقی صدیقی

ان پہ قربان ہر خوشی کر دی

زندگی نذر زندگی کر دی

فگار اناوی

نیند کو لوگ موت کہتے ہیں

خواب کا نام زندگی بھی ہے

احسن یوسف زئی

خوابوں پر اختیار نہ یادوں پہ زور ہے

کب زندگی گزاری ہے اپنے حساب میں

فاطمہ حسن

دیکھا ہے زندگی کو کچھ اتنے قریب سے

چہرے تمام لگنے لگے ہیں عجیب سے

ساحر لدھیانوی

ایک سیتا کی رفاقت ہے تو سب کچھ پاس ہے

زندگی کہتے ہیں جس کو رام کا بن باس ہے

حفیظ بنارسی

زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب

موت کیا ہے انہیں اجزا کا پریشاں ہونا

تشریح

چکبست کا یہ شعر بہت مشہور ہے۔ غالب نے کیا خوب کہا تھا:

ہو گئے مضمحل قویٰ غالبؔ

اب عناصر میں اعتدال کہاں

انسانی جسم کچھ عناصر کی ترتیب سے تشکیل پاتا ہے۔ حکماء کی نظر میں وہ عناصر آگ، ہوا، مٹی اور پانی ہے۔ ان عناصر میں جب انتشار پیدا ہوتا ہے تو انسانی جسم اپنا توازن کھو بیٹھتا ہے۔یعنی غالب کی زبان میں جب عناصر میں اعتدال نہیں رہتا تو قویٰ یعنی مختلف قوتیں کمزور ہوجاتی ہیں۔ چکبست اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ جب تک انسانی جسم میں عناصر ترتیب کے ساتھ رہتے ہیں آدمی زندہ رہتا ہے۔ اور جب یہ عناصر پریشان ہوجاتے ہیں یعنی ان میں توزن اور اعتدال نہیں رہتا تو موت واقع ہو جاتی ہے۔

شفق سوپوری

چکبست برج نرائن

زندگی اک سوال ہے جس کا جواب موت ہے

موت بھی اک سوال ہے جس کا جواب کچھ نہیں

امن لکھنوی

زندگی کیا ہے اک کہانی ہے

یہ کہانی نہیں سنانی ہے

جون ایلیا

زندگی کم پڑھے پردیسی کا خط ہے عبرتؔ

یہ کسی طرح پڑھا جائے نہ سمجھا جائے

عبرت مچھلی شہری

موت ہی انسان کی دشمن نہیں

زندگی بھی جان لے کر جائے گی

عرش ملسیانی

وقت سے لمحہ لمحہ کھیلی ہے

زندگی اک عجب پہیلی ہے

امیتا پرسو رام میتا

جو پڑھا ہے اسے جینا ہی نہیں ہے ممکن

زندگی کو میں کتابوں سے الگ رکھتا ہوں

ظفر صہبائی

لوگ مرتے بھی ہیں جیتے بھی ہیں بیتاب بھی ہیں

کون سا سحر تری چشم عنایت میں نہیں

اصغر گونڈوی

حیات لاکھ ہو فانی مگر یہ سن رکھئے

حیات سے جو ہے مقصود غیر فانی ہے

کالی داس گپتا رضا

کچھ اور طرح کی مشکل میں ڈالنے کے لیے

میں اپنی زندگی آسان کرنے والا ہوں

آفتاب حسین

خدا آباد رکھے زندگی کو

ہماری خامشی کو سہہ گئی ہے

جاوید ناصر

زندگی کیا ہے آج اسے اے دوست

سوچ لیں اور اداس ہو جائیں

فراق گورکھپوری

ہچکیوں پر ہو رہا ہے زندگی کا راگ ختم

جھٹکے دے کر تار توڑے جا رہے ہیں ساز کے

ناطق گلاوٹھی

اے عدم کے مسافرو ہشیار

راہ میں زندگی کھڑی ہوگی

ساغر صدیقی

حیات آج بھی کنیز ہے حضور جبر میں

جو زندگی کو جیت لے وہ زندگی کا مرد ہے

بشیر بدر

جنم جنم کے ساتوں دکھ ہیں اس کے ماتھے پر تحریر

اپنا آپ مٹانا ہوگا یہ تحریر مٹانے میں

ابن انشا

زندگی چھین لے بخشی ہوئی دولت اپنی

تو نے خوابوں کے سوا مجھ کو دیا بھی کیا ہے

اختر سعید خان

اک زندگی عمل کے لیے بھی نصیب ہو

یہ زندگی تو نیک ارادوں میں کٹ گئی

خلیل قدوائی

پہلا قدم ہی آخری زینے پہ رکھ دیا

یعنی جو دل کا بوجھ تھا سینے پہ رکھ دیا

صابر ظفر

مری محبت میں ساری دنیا کو اک کھلونا بنا دیا ہے

یہ زندگی بن گئی ہے ماں اور مجھ کو بچہ بنا دیا ہے

فرحت احساس

یہی ہے زندگی کچھ خواب چند امیدیں

انہیں کھلونوں سے تم بھی بہل سکو تو چلو

ندا فاضلی

تجدید زندگی کے اشارے ہوئے تو ہیں

کچھ پل سہی وہ آج ہمارے ہوئے تو ہیں

امیتا پرسو رام میتا

تیرے بغیر بھی تو غنیمت ہے زندگی

خود کو گنوا کے کون تری جستجو کرے

احمد فراز

زندگی دھوپ میں آنے سے کھلی

سایہ دیوار اٹھانے سے کھلا

کاشف حسین غائر

مجھے خبر نہیں غم کیا ہے اور خوشی کیا ہے

یہ زندگی کی ہے صورت تو زندگی کیا ہے

احسن مارہروی
بولیے