Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Akbar Allahabadi's Photo'

اکبر الہ آبادی

1846 - 1921 | الہٰ آباد, انڈیا

اردو میں طنز و مزاح کے سب سے بڑے شاعر ، الہ آباد میں سیشن جج تھے

اردو میں طنز و مزاح کے سب سے بڑے شاعر ، الہ آباد میں سیشن جج تھے

اکبر الہ آبادی کے اشعار

178.4K
Favorite

باعتبار

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بد نام

وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا

عشق نازک مزاج ہے بے حد

عقل کا بوجھ اٹھا نہیں سکتا

دنیا میں ہوں دنیا کا طلب گار نہیں ہوں

بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں

ہم کیا کہیں احباب کیا کار نمایاں کر گئے

بی اے ہوئے نوکر ہوئے پنشن ملی پھر مر گئے

حیا سے سر جھکا لینا ادا سے مسکرا دینا

حسینوں کو بھی کتنا سہل ہے بجلی گرا دینا

مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں

فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں

جو کہا میں نے کہ پیار آتا ہے مجھ کو تم پر

ہنس کے کہنے لگا اور آپ کو آتا کیا ہے

آئی ہوگی کسی کو ہجر میں موت

مجھ کو تو نیند بھی نہیں آتی

کھینچو نہ کمانوں کو نہ تلوار نکالو

جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو

رہتا ہے عبادت میں ہمیں موت کا کھٹکا

ہم یاد خدا کرتے ہیں کر لے نہ خدا یاد

لوگ کہتے ہیں بدلتا ہے زمانہ سب کو

مرد وہ ہیں جو زمانے کو بدل دیتے ہیں

اکبر دبے نہیں کسی سلطاں کی فوج سے

لیکن شہید ہو گئے بیوی کی نوج سے

ہم ایسی کل کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں

کہ جن کو پڑھ کے لڑکے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں

ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی جو پی لی ہے

ڈاکا تو نہیں مارا چوری تو نہیں کی ہے

بس جان گیا میں تری پہچان یہی ہے

تو دل میں تو آتا ہے سمجھ میں نہیں آتا

الٰہی کیسی کیسی صورتیں تو نے بنائی ہیں

کہ ہر صورت کلیجے سے لگا لینے کے قابل ہے

عشق کے اظہار میں ہر چند رسوائی تو ہے

پر کروں کیا اب طبیعت آپ پر آئی تو ہے

خدا سے مانگ جو کچھ مانگنا ہے اے اکبرؔ

یہی وہ در ہے کہ ذلت نہیں سوال کے بعد

قوم کے غم میں ڈنر کھاتے ہیں حکام کے ساتھ

رنج لیڈر کو بہت ہے مگر آرام کے ساتھ

رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں

کہ اکبرؔ نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں

جب میں کہتا ہوں کہ یا اللہ میرا حال دیکھ

حکم ہوتا ہے کہ اپنا نامۂ اعمال دیکھ

لپٹ بھی جا نہ رک اکبرؔ غضب کی بیوٹی ہے

نہیں نہیں پہ نہ جا یہ حیا کی ڈیوٹی ہے

آہ جو دل سے نکالی جائے گی

کیا سمجھتے ہو کہ خالی جائے گی

بتاؤں آپ کو مرنے کے بعد کیا ہوگا

پلاؤ کھائیں گے احباب فاتحہ ہوگا

غضب ہے وہ ضدی بڑے ہو گئے

میں لیٹا تو اٹھ کے کھڑے ہو گئے

جو وقت ختنہ میں چیخا تو نائی نے کہا ہنس کر

مسلمانی میں طاقت خون ہی بہنے سے آتی ہے

ہر ذرہ چمکتا ہے انوار الٰہی سے

ہر سانس یہ کہتی ہے ہم ہیں تو خدا بھی ہے

حقیقی اور مجازی شاعری میں فرق یہ پایا

کہ وہ جامے سے باہر ہے یہ پاجامے سے باہر ہے

وصل ہو یا فراق ہو اکبرؔ

جاگنا رات بھر مصیبت ہے

مے بھی ہوٹل میں پیو چندہ بھی دو مسجد میں

شیخ بھی خوش رہیں شیطان بھی بے زار نہ ہو

تیار تھے نماز پہ ہم سن کے ذکر حور

جلوہ بتوں کا دیکھ کے نیت بدل گئی

اس قدر تھا کھٹملوں کا چارپائی میں ہجوم

وصل کا دل سے مرے ارمان رخصت ہو گیا

کوٹ اور پتلون جب پہنا تو مسٹر بن گیا

جب کوئی تقریر کی جلسے میں لیڈر بن گیا

محبت کا تم سے اثر کیا کہوں

نظر مل گئی دل دھڑکنے لگا

ناز کیا اس پہ جو بدلا ہے زمانے نے تمہیں

مرد ہیں وہ جو زمانے کو بدل دیتے ہیں

عقل میں جو گھر گیا لا انتہا کیوں کر ہوا

جو سما میں آ گیا پھر وہ خدا کیوں کر ہوا

دھمکا کے بوسے لوں گا رخ رشک ماہ کا

چندا وصول ہوتا ہے صاحب دباؤ سے

سدھاریں شیخ کعبہ کو ہم انگلستان دیکھیں گے

وہ دیکھیں گھر خدا کا ہم خدا کی شان دیکھیں گے

عشوہ بھی ہے شوخی بھی تبسم بھی حیا بھی

ظالم میں اور اک بات ہے اس سب کے سوا بھی

یہ دلبری یہ ناز یہ انداز یہ جمال

انساں کرے اگر نہ تری چاہ کیا کرے

سمجھ میں صاف آ جائے فصاحت اس کو کہتے ہیں

اثر ہو سننے والے پر بلاغت اس کو کہتے ہیں

دعویٰ بہت بڑا ہے ریاضی میں آپ کو

طول شب فراق کو تو ناپ دیجئے

تشریح

یہ شعر اکبر الہ آبادی کے خاص ظریفانہ لہجے کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس میں طنز کے ساتھ مزاح کا پہلو بھی ہے۔ علم ریاضی کے دعویدار پر جہاں طنز ہے وہیں شبِ فراق کی لمبائی کو ناپنے میں مزاح کا پہلو ہے۔ شبِ فراق یعنی محبوب سے عاشق کی جدائی کی رات بہت لمبی تصور کی جاتی ہے۔ اس موضوع کی مناسبت سے اردو شاعروں نے طرح طرح کے مضامین پیدا کئے ہیں، مگر زیرِ بحث شعر کو اس کے ظرافتی پہلو نے دلچسپ بنایا ہے۔

غالب نے اپنے ایک شعر میں محبوب کی کمر کے بارے میں کہا ہے :

ہے کیا جو کس کے باندھیے میری بلا ڈرے

کیا جانتا نہیں ہوں تمہاری کمر کو میں

جس طرح غالب نے اپنے محبوب کی کمر کو موہوم یعنی نہ ہونے کے برابر مانا ہے اسی طرح اکبر الہ آبادی عاشق کی معشوق سے جدائی کی رات کی لمبائی کو اس قدر طویل مانتے ہیں کہ اس کی پیمایش ممکن نہیں۔ چونکہ اکبر الہ آبادی ایک خاص فکر کے شاعر ہیں اور وہ مغربیت کو مشرقیت کی روح کے لئے مضر مانتے ہیں اس لئے انہوں نے جگہ جگہ پر مغربی معاشرے، اس کے علوم وغیرہ پر طنز کئے ہیں۔ اس شعر کی ایک معنوی جہت یہ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص علمِ ریاضی کا بہت بڑا عالم ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تو چونکہ علم ریاضی کا ایک پہلو پیمائش بھی ہے اس لئے میں اس کا دعویٰ تب حق تسلیم کروں گا، جب وہ شبِ جدائی کی طولانی ناپ کے دکھائے۔

شفق سوپوری

لیڈروں کی دھوم ہے اور فالوور کوئی نہیں

سب تو جنرل ہیں یہاں آخر سپاہی کون ہے

سو جان سے ہو جاؤں گا راضی میں سزا پر

پہلے وہ مجھے اپنا گنہ گار تو کر لے

جب غم ہوا چڑھا لیں دو بوتلیں اکٹھی

ملا کی دوڑ مسجد اکبرؔ کی دوڑ بھٹی

دل وہ ہے کہ فریاد سے لبریز ہے ہر وقت

ہم وہ ہیں کہ کچھ منہ سے نکلنے نہیں دیتے

سینے سے لگائیں تمہیں ارمان یہی ہے

جینے کا مزا ہے تو مری جان یہی ہے

شیخ اپنی رگ کو کیا کریں ریشے کو کیا کریں

مذہب کے جھگڑے چھوڑیں تو پیشے کو کیا کریں

ہوئے اس قدر مہذب کبھی گھر کا منہ نہ دیکھا

کٹی عمر ہوٹلوں میں مرے اسپتال جا کر

لگاوٹ کی ادا سے ان کا کہنا پان حاضر ہے

قیامت ہے ستم ہے دل فدا ہے جان حاضر ہے

Recitation

بولیے