Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Mirza Ghalib's Photo'

مرزا غالب

1797 - 1869 | دلی, انڈیا

عظیم شاعر۔ عالمی ادب میں اردو کی آواز۔ خواص و عوام دونوں میں مقبول۔

عظیم شاعر۔ عالمی ادب میں اردو کی آواز۔ خواص و عوام دونوں میں مقبول۔

مرزا غالب کے اشعار

464.9K
Favorite

باعتبار

فکر دنیا میں سر کھپاتا ہوں

میں کہاں اور یہ وبال کہاں

ہوا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا

وگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے

پوچھے ہے کیا وجود و عدم اہل شوق کا

آپ اپنی آگ کے خس و خاشاک ہو گئے

کون ہے جو نہیں ہے حاجت مند

کس کی حاجت روا کرے کوئی

اک نو بہار ناز کو تاکے ہے پھر نگاہ

چہرہ فروغ مے سے گلستاں کیے ہوئے

شاہد ہستی مطلق کی کمر ہے عالم

لوگ کہتے ہیں کہ ہے پر ہمیں منظور نہیں

یوں ہی گر روتا رہا غالبؔ تو اے اہل جہاں

دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گئیں

تشریح

یہ شعر غالب کے مقبولِ عام اشعار میں سے ایک ہے۔ غالب نے گریے پر بہت اعلیٰ مضامین پیدا کئے ہیں۔ جیسے یہ کمال کا شعر مثال کے طور پر لیجیے؎

وفورِ اشک نے کاشانے کا کیا وہ رنگ

کہ ہوگئے مرے دیوار و در درو دیوار

زیرِ نظر شعر میں غالب اپنے گریے کی تاثیر کے بارے میں دعویٰ کرتے ہیں۔ اس شعرمیں ’’یوں ہی گر روتا رہا‘‘ بہت معنی خیز ہے۔ یوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وفورِ اشک والا معاملہ ہے۔ یعنی آنکھوں سے بڑی مقدار میں آنسو جاری ہو رہے ہیں۔ یہ تو معاملہ گریہ کا ہے۔ اس کے اسباب بہت ہوسکتے ہیں۔ جیسے یہ کہ محبوب سے جدائی کے غم میں آنسو بہائے جارہے ہیں یا یہ کہ محبوب کی بے اعتنائی اس گریہ کا سبب ہے یا پھر یہ کہ غمِ روزگار کی وجہ سے غالب گریہ کررہے ہیں۔ مگر چونکہ غالب اہلِ جہاں سے مخاطب ہیں اس لئے غالب گمان یہ ہوتا ہے کہ ان کے یعنی غالب کے گریہ کی وجہ دنیا والوں کی بے اعتنائی ہے۔ اسی بنا پر غالب ان کو متنبہ کرتے ہیں کہ اگر میرا گریہ اسی طرح جاری رہا تو جو بستیاں تم دیکھ رہے ہو اور جن بستیوں میں تم رہتے ہو وہ میرے آنسوؤں میں ڈوب جائیں گی۔ وفورِ اشک والے شعر میں معاملہ غالب کے خود کے گھر تک محدود ہے جبکہ زیرِ نظر شعر میں یہ معاملہ بستیوں کی ویرانی تک پہنچ جاتا ہے۔

شفق سوپوری

سو بار بند عشق سے آزاد ہم ہوئے

پر کیا کریں کہ دل ہی عدو ہے فراغ کا

ہاں اے فلک پیر جواں تھا ابھی عارف

کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور

ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن

خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہوتے تک

بات پر واں زبان کٹتی ہے

وہ کہیں اور سنا کرے کوئی

کوئی امید بر نہیں آتی

کوئی صورت نظر نہیں آتی

اس نزاکت کا برا ہو، وہ بھلے ہیں تو کیا

ہاتھ آویں تو انہیں ہاتھ لگائے نہ بنے

ہمارے شعر ہیں اب صرف دل لگی کے اسدؔ

کھلا کہ فائدہ عرض ہنر میں خاک نہیں

یہی ہے آزمانا تو ستانا کس کو کہتے ہیں

عدو کے ہو لیے جب تم تو میرا امتحاں کیوں ہو

غالبؔ چھٹی شراب پر اب بھی کبھی کبھی

پیتا ہوں روز ابر و شب ماہ تاب میں

کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب

آؤ نہ ہم بھی سیر کریں کوہ طور کی

آنکھ کی تصویر سر نامے پہ کھینچی ہے کہ تا

تجھ پہ کھل جاوے کہ اس کو حسرت دیدار ہے

آج واں تیغ و کفن باندھے ہوے جاتا ہوں میں

عذر میرے قتل کرنے میں وہ اب لاویں گے کیا

ہے تماشا گاہ سوز تازہ ہر یک عضو تن

جوں چراغان دوالی صف بہ صف جلتا ہوں میں

تو نے قسم مے کشی کی کھائی ہے غالبؔ

تیری قسم کا کچھ اعتبار نہیں ہے

مہرباں ہو کے بلا لو مجھے چاہو جس وقت

میں گیا وقت نہیں ہوں کہ پھر آ بھی نہ سکوں

ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب

ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا

گو میں رہا رہین ستم ہائے روزگار

لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا

تشریح

اس شعر میں کوئی گہرے معنی نہیں۔ ہو سکتا ہے غالبؔ نے یہ شعر کسی دوست کی شکایت کے جواب میں لکھا ہو کہ آپ نے تو مجھے بھلا ہی دیا۔ بہرحال شعر دوست کے لیے کہا گیا ہو یا محبوب کے لیے، اس میں بھی بتایا گیا ہے کہ دنیاوی مصروفیات، الجھنوں اور پریشانیوں کے باوجود کوئی اپنے چہیتوں کو بھول نہیں جاتا، چہ جائے یہ کہ اُسے جو اس کی سانسوں میں بسا ہو۔ متاخرین میں فراقؔ نے بھی اسی سے ملتا جلتا مضمون باندھا ہے:۔

ایک مدت سے تری یاد بھی آئی نہ ہمیں

اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں

لیکن غالبؔ، غالبؔ ہیں۔ وہ سیدھی سی بات میں بھی اپنی چھاپ چھوڑ جاتے ہیں۔ پہلے ’’ستم ہائے روزگار‘‘ پر بات کر لیتے ہیں۔ غالبؔ کے کلام میں ہائے ہائے کی آوازیں اکثر گونجتی رہتی ہیں اور وہ الفاظ کی جمع بنانے میں ہائے کا استعمال بہت کرتے ہیں۔ غلطی ہائے مضامین، خندہ ہائے گل، کاوش ہائے مژگاں، اندیشہ ہائے دوردراز وغیرہ وغیرہ۔ پھر ستم کے ساتھ تو ہائے عین مناسب ہے۔ روزگار دنیا اور زمانہ کو کہتے ہیں۔ شاعر مخاطب سے کہتا ہے کہ میں دنیا کے جھمیلوں میں کتنا ہی کیوں نہ پھنسا رہا لیکن تیرے خیال سے غافل نہیں رہا۔ لیکن ڈھکے چھپے انداز میں جو بات کہی وہ بڑی دلچسپ ہے۔ زمانہ کے ستم کیسے بھی رہے ہوں لیکن ان میں وہ بات کہاں جو تیرے ستم میں ہے۔ دنیا کے ستم تکلیف دہ ہوتے ہیں لیکن ترے ستم میں اک لطف، ایک لذت ہے۔ اور زمانہ کے ہر ستم پر مجھے تیری یاد ستاتی رہی اور اس طرح روزگار کے کسی ستم نے مجھے تیری یاد سے غافل نہیں ہونے دیا۔ زمانہ سے ملنے والے دکھ، آدمی وقت کے ساتھ بھول جاتا ہے لیکن محبوب کے ستم عاشق کو کبھی اس کی یاد سے غافل نہیں ہونے دیتے۔ حاصلِ کلام یہ ہے کہ دنیا کا کوئی دکھ محبوب کے دیئے ہوئے درد سے بڑھ کر نہیں اور ایک لمحہ بھی اس سے نجات نہیں۔

محمد اعظم

رکھیو غالبؔ مجھے اس تلخ نوائی میں معاف

آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے

یا رب ہمیں تو خواب میں بھی مت دکھائیو

یہ محشر خیال کہ دنیا کہیں جسے

کام اس سے آ پڑا ہے کہ جس کا جہان میں

لیوے نہ کوئی نام ستمگر کہے بغیر

زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالبؔ

ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے

غم ہستی کا اسدؔ کس سے ہو جز مرگ علاج

شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہوتے تک

نے تیر کماں میں ہے نہ صیاد کمیں میں

گوشے میں قفس کے مجھے آرام بہت ہے

جب مے کدہ چھٹا تو پھر اب کیا جگہ کی قید

مسجد ہو مدرسہ ہو کوئی خانقاہ ہو

دایم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میں

خاک ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہوں میں

فرداودی کا تفرقہ یک بار مٹ گیا

کل تم گئے کہ ہم پہ قیامت گزر گئی

پنہاں تھا دام سخت قریب آشیان کے

اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

زباں پہ بار خدایا یہ کس کا نام آیا

کہ میرے نطق نے بوسے مری زباں کے لیے

یوسف اس کو کہو اور کچھ نہ کہے خیر ہوئی

گر بگڑ بیٹھے تو میں لائق تعزیر بھی تھا

میں بھی رک رک کے نہ مرتا جو زباں کے بدلے

دشنہ اک تیز سا ہوتا مرے غم خوار کے پاس

میں اور صد ہزار نواۓ جگر خراش

تو اور ایک وہ نا شنیدن کہ کیا کہوں

صادق ہوں اپنے قول کا غالبؔ خدا گواہ

کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے

عمر بھر کا تو نے پیمان وفا باندھا تو کیا

عمر کو بھی تو نہیں ہے پائیداری ہاے ہاے

ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی

کچھ ہماری خبر نہیں آتی

غم فراق میں تکلیف سیر باغ نہ دو

مجھے دماغ نہیں خندہ ہائے بے جا کا

تشریح

دماغ نہیں، مطلب تاب نہیں، طاقت نہیں، برداشت نہیں۔ خندہ ہائے بیجا فضول، بے وقت، بے موقع ہنسی، شعر کا منظر نامہ یہ ہے کہ عاشق محبوب کے فراق میں اداس اور غمزدہ بیٹھا ہے اور اس کا کوئی ہمدرد دوست اس کا غم غلط کرنے یا دل بہلانے کے لیے باغ کی سیر کا مشورہ دیتا ہے۔ جواب میں عاشق کہتا ہے کہ تم سکون اور دل کے بہلنے کی بات کرتے ہو؟ وہاں جا کر تو میری تکلیف اور زیادہ بڑھ جائے گی۔ وہاں کے پھولوں کی فضول اور بے موقع ہنسی برداشت کرنے کی مجھ میں طاقت نہیں۔ اس بیان میں بہت سی ان کہی باتیں چھپی ہیں۔ جب آدمی کا دل اداس اور غمگین ہوتا ہے تو اسے کچھ بھی اچھا نہیں لگتا۔ اسے اچھی بات بھی بری لگتی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ پھولوں کی ہنسی اسے خندہ ہائے بیجا لگتی ہے۔ اسے لگتا ہے کہ پھول اس کی حالت کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ شاید وہ اسے دیوانہ سمجھتے ہیں۔ غالبؔ نے یہ بات اک دوسرے شعر میں کس قدر کھول کر بیان کی ہے۔

بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل

کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا

پھولوں کے نزدیک یہ دماغی خلل یا پاگل پن ہے تو عاشق ایسی جگہ جا کر اپنے عشق کی توہین کیوں کرائے۔ ’’میں اور، یار اور، مرا کاروبار اور‘‘ لیکن پھولوں کو اتنی سمجھ کہاں۔ ان کو تو یہ بھی معلوم نہیں کہ چند گھنٹوں میں ان کی ہنسی پھیکی پڑ جائے گی۔ ان کی گردن لٹک جائے گی اور وہ خاک میں مل جائیں گے۔ ان کی ہنسی فضول، بے وقت اور بے موقع ہے۔ اگر باغ کو دنیا فرض کریں تو اس کی رونقیں پھولوں کی ہنسی کی طرح وقتی اور بے موقع ہیں۔ دنیا ہنسنے کی نہیں رونے کی جگہ ہے۔ جو ہنستا ہے وہ اپنی ہنسی اور اپنے انجام سے غافل ہے۔ پریم لال شاد دہلوی نے کیا خوب کہا ہے:۔

یا تو دیوانہ ہنسے یا وہ جسے توفیق دے

ورنہ اس دنیا میں رہ کر مسکراتا کون ہے

غالبؔ کے شعر میں محبوب سے جدائی کے غم کی شدت اور غم کو زندگی کی اصل حقیقت نہ مان کر موج مستی کرنے والوں سے شاعر کے تنفر کا بیان ہے۔

محمد اعظم

وعدہ آنے کا وفا کیجے یہ کیا انداز ہے

تم نے کیوں سونپی ہے میرے گھر کی دربانی مجھے

پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا

دل جگر تشنۂ فریاد آیا

اپنی گلی میں مجھ کو نہ کر دفن بعد قتل

میرے پتے سے خلق کو کیوں تیرا گھر ملے

اب جفا سے بھی ہیں محروم ہم اللہ اللہ

اس قدر دشمن ارباب وفا ہو جانا

رہے نہ جان تو قاتل کو خوں بہا دیجے

کٹے زبان تو خنجر کو مرحبا کہیے

لیتا نہیں مرے دل آوارہ کی خبر

اب تک وہ جانتا ہے کہ میرے ہی پاس ہے

اعتبار عشق کی خانہ خرابی دیکھنا

غیر نے کی آہ لیکن وہ خفا مجھ پر ہوا

تشریح

معنی سے قطعِ نظر اس شعر میں دو ایسی خصوصیات نمایاں ہیں جو غالبؔ کے ساتھ مخصوص ہیں۔ اردو غزل کی روایتی شاعری میں معشوق کو اپنے عاشقوں کے عشق کی صداقت کا اعتبار نہیں ہوتا اسی لیے وہ طرح طرح کے جوروستم کر کے ان کے عشق کو آزماتا ہے۔ جب کہ اس شعر میں شاعر کے بقول محبوب کو اس کے عشق پر اعتبار ہے۔ دوسری خصوصیت یہ کہ غالبؔ خود کو افسوسناک لیکن مضحکہ خیز صورت حال میں ڈال کر اس طرح منہ بسورتے ہیں کہ تصور کی آنکھوں سے دیکھنے والے کو رنج بھی ہو اور ہنسی بھی آ جائے۔ غالبؔ کے یہاں اس طرح کی مثالیں بار بار مل جاتی ہیں۔

گدا سمجھ کے وہ چپ تھا مری جو شامت آئی

اٹھا اور اٹھ کے قدم میں نے پاسباں کے لیے

یا

در پہ رہنے کو کہا اور کہہ کے کیسا پھر گیا

جتنے عرصے میں مرا لپٹا ہوا بستر کھلا

اب زیربحث شعر کا منظر یہ ہے کہ معشوق کے گرد، شاعر سمیت عاشقوں کا اک ہجوم ہے۔ ان میں سے کسی نے اک آہ کی اور جھاڑ بیچارے شاعر کو پڑ گئی۔ لیکن شاعر اس خفگی کا اک مثبت پہلو تلاش کرتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ محبوب کو اس کے عشق کی صداقت کا یقین ہو گیا ہے، تبھی تو وہ آہ کی توقع بس اسی سے رکھتا تھا اور جب کسی دوسرے نے آہ بھری تو اس نے خیال کیا کہ یہ شاعر کی آہ ہے اور اس کی خفگی اک ادائے معشوقانہ ہے۔ پھر شاعر خیال کرتا ہے کہ اگر معشوق کو اس کے عشق کا اعتبار آ بھی گیا تو کس کام کا۔ اعتبارِ عشق میں بھی بدنصیبی نے ساتھ نہ چھوڑا اور التفات کے بجائے خفگی ملی۔ محبوب کی ناراضگی کی اک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اسے یہ بات پسند نہیں آئی کہ اس کے اک عاشق صادق کی موجودگی میں کوئی دوسرا آہ بھرے اور اس نے اپنا یہ غصہ شاعر پر اتار دیا۔ ناراضگی کی تیسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ محبوب شاعر کو تنبیہ کرنا چاہتا ہے کہ یہ خیال نہ کرنا کہ مجھے تمہارے عشق کی صداقت کا اعتبار ہے تو تم ادابِ عشق بھول جاؤ اور آہیں بھرنا ترک کردو۔ اب اس معتبر عشق کی بدنصیبی پر روئیں یا ہنسیں کہ امتحان عشق میں پاس ہو جانے کے بعد بھی بے چارے عاشق کو محبوب کے منہ سے دو میٹھے بول نصیب نہیں ہوئے۔

محمد اعظم

Recitation

بولیے