Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بوسہ پر اشعار

بوسہ پر شاعری عاشق کی

بوسے کی طلب کی کیفیتوں کا بیانیہ ہے ، ساتھ ہی اس میں معشوق کے انکار کی مزے دار صورتیں بھی شامل ہو جاتی ہیں ۔ یہ طلب اور انکار کا ایک جھگڑا ہے جسے شاعروں کے تخیل نے بےحد رنگین اور دلچسپ بنادیا ہے ۔ اس مضمون میں شوخی ، مزاح ، حسرت اور غصے کی ملی جلی کیفیتوں نے ایک اور ہی فضا پیدا کی ہے ۔ ہمارا یہ چھوٹا سا انتخاب پڑھئے اور ان کیفیتوں کو محسوس کیجئے۔

آتا ہے جی میں ساقئ مہ وش پہ بار بار

لب چوم لوں ترا لب پیمانہ چھوڑ کر

جلیل مانک پوری

نہ ہو برہم جو بوسہ بے اجازت لے لیا میں نے

چلو جانے دو بیتابی میں ایسا ہو ہی جاتا ہے

جلالؔ لکھنوی

جی میں ہے اتنے بوسے لیجے کہ آج

مہر اس کے وہاں سے اٹھ جاوے

مصحفی غلام ہمدانی

بوسے اپنے عارض گلفام کے

لا مجھے دے دے ترے کس کام کے

مضطر خیرآبادی

بوسے بیوی کے ہنسی بچوں کی آنکھیں ماں کی

قید خانے میں گرفتار سمجھئے ہم کو

فضیل جعفری

بوسے میں ہونٹ الٹا عاشق کا کاٹ کھایا

تیرا دہن مزے سیں پر ہے پے ہے کٹورا

آبرو شاہ مبارک

سبھی انعام نت پاتے ہیں اے شیریں دہن تجھ سے

کبھو تو ایک بوسے سے ہمارا منہ بھی میٹھا کر

جرأت قلندر بخش

بوسہ لیا جو اس لب شیریں کا مر گئے

دی جان ہم نے چشمۂ آب حیات پر

امیر مینائی

بوسہ تو اس لب شیریں سے کہاں ملتا ہے

گالیاں بھی ملیں ہم کو تو ملیں تھوڑی سی

نظام رامپوری

محبت ایک پاکیزہ عمل ہے اس لیے شاید

سمٹ کر شرم ساری ایک بوسے میں چلی آئی

منور رانا

بجھے لبوں پہ ہے بوسوں کی راکھ بکھری ہوئی

میں اس بہار میں یہ راکھ بھی اڑا دوں گا

ساقی فاروقی

لب نازک کے بوسے لوں تو مسی منہ بناتی ہے

کف پا کو اگر چوموں تو مہندی رنگ لاتی ہے

آسی غازی پوری

مل گئے تھے ایک بار اس کے جو میرے لب سے لب

عمر بھر ہونٹوں پہ اپنے میں زباں پھیرا کیے

جرأت قلندر بخش

ہم کو گالی کے لیے بھی لب ہلا سکتے نہیں

غیر کو بوسہ دیا تو منہ سے دکھلا کر دیا

عادل منصوری

اس لب سے مل ہی جائے گا بوسہ کبھی تو ہاں

شوق فضول و جرأت رندانہ چاہئے

مرزا غالب

گڑ سیں میٹھا ہے بوسہ تجھ لب کا

اس جلیبی میں قند و شکر ہے

فائز دہلوی

اس وقت دل پہ کیوں کے کہوں کیا گزر گیا

بوسہ لیتے لیا تو سہی لیک مر گیا

آبرو شاہ مبارک

بوسہ جو طلب میں نے کیا ہنس کے وہ بولے

یہ حسن کی دولت ہے لٹائی نہیں جاتی

نامعلوم

کیا تاب کیا مجال ہماری کہ بوسہ لیں

لب کو تمہارے لب سے ملا کر کہے بغیر

بہادر شاہ ظفر

بوساں لباں سیں دینے کہا کہہ کے پھر گیا

پیالہ بھرا شراب کا افسوس گر گیا

آبرو شاہ مبارک

بولے وہ بوسہ ہائے پیہم پر

ارے کمبخت کچھ حساب بھی ہے

حسن بریلوی

مزا آب بقا کا جان جاناں

ترا بوسہ لیا ہووے سو جانے

عشق اورنگ آبادی

لب جاں بخش تک جا کر رہے محروم بوسہ سے

ہم اس پانی کے پیاسے تھے جو تڑپاتا ہے ساحل پر

حبیب موسوی

بوسہ ہونٹوں کا مل گیا کس کو

دل میں کچھ آج درد میٹھا ہے

منیر  شکوہ آبادی

دھمکا کے بوسے لوں گا رخ رشک ماہ کا

چندا وصول ہوتا ہے صاحب دباؤ سے

اکبر الہ آبادی

دکھا کے جنبش لب ہی تمام کر ہم کو

نہ دے جو بوسہ تو منہ سے کہیں جواب تو دے

مرزا غالب

بوسۂ رخسار پر تکرار رہنے دیجیے

لیجیے یا دیجیے انکار رہنے دیجیے

حفیظ جونپوری

ایک بوسہ ہونٹ پر پھیلا تبسم بن گیا

جو حرارت تھی مری اس کے بدن میں آ گئی

کاوش بدری

کیا قیامت ہے کہ عارض ان کے نیلے پڑ گئے

ہم نے تو بوسہ لیا تھا خواب میں تصویر کا

نامعلوم

بوسہ دیتے نہیں اور دل پہ ہے ہر لحظہ نگاہ

جی میں کہتے ہیں کہ مفت آئے تو مال اچھا ہے

مرزا غالب

ایک بوسے کے طلب گار ہیں ہم

اور مانگیں تو گنہ گار ہیں ہم

نامعلوم

جی اٹھوں پھر کر اگر تو ایک بوسہ دے مجھے

چوسنا لب کا ترے ہے مجھ کو جوں آب حیات

شیخ ظہور الدین حاتم

نمکیں گویا کباب ہیں پھیکے شراب کے

بوسا ہے تجھ لباں کا مزیدار چٹ پٹا

آبرو شاہ مبارک

لیا میں بوسہ بہ زور اس سپاہی زادے کا

عزیزو اب بھی مری کچھ دلاوری دیکھی

مصحفی غلام ہمدانی

ایک بوسہ مانگتا ہے تم سے حاتمؔ سا گدا

جانیو راہ خدا میں یہ بھی اک خیرات کی

شیخ ظہور الدین حاتم

لٹاتے ہیں وہ دولت حسن کی باور نہیں آتا

ہمیں تو ایک بوسہ بھی بڑی مشکل سے ملتا ہے

جلیل مانک پوری

سادگی دیکھ کہ بوسے کی طمع رکھتا ہوں

جن لبوں سے کہ میسر نہیں دشنام مجھے

مصحفی غلام ہمدانی

لب خیال سے اس لب کا جو لیا بوسہ

تو منہ ہی منہ میں عجب طرح کا مزا آیا

جرأت قلندر بخش

میں آ رہا ہوں ابھی چوم کر بدن اس کا

سنا تھا آگ پہ بوسہ رقم نہیں ہوتا

شناور اسحاق

جلدی طلب بوسہ پہ کیجے تو کہے واہ

ایسا اسے کیا سمجھے ہو تم منہ کا نوالا

جرأت قلندر بخش

ہم تو کیوں کر کہیں کہ بوسہ دو

گر عنایت کرو عنایت ہے

حکیم دہلوی

جو ان کو لپٹا کے گال چوما حیا سے آنے لگا پسینہ

ہوئی ہے بوسوں کی گرم بھٹی کھنچے نہ کیوں کر شراب عارض

احمد حسین مائل

کیا خوب تم نے غیر کو بوسہ نہیں دیا

بس چپ رہو ہمارے بھی منہ میں زبان ہے

مرزا غالب

رخسار پر ہے رنگ حیا کا فروغ آج

بوسے کا نام میں نے لیا وہ نکھر گئے

حکیم محمد اجمل خاں شیدا

دل لگی میں حسرت دل کچھ نکل جاتی تو ہے

بوسے لے لیتے ہیں ہم دو چار ہنستے بولتے

منشی امیر اللہ تسلیم

بے خودی میں لے لیا بوسہ خطا کیجے معاف

یہ دل بیتاب کی ساری خطا تھی میں نہ تھا

میرزا ابوالمظفر ظفر

لجا کر شرم کھا کر مسکرا کر

دیا بوسہ مگر منہ کو بنا کر

نامعلوم

بوسہ آنکھوں کا جو مانگا تو وہ ہنس کر بولے

دیکھ لو دور سے کھانے کے یہ بادام نہیں

امانت لکھنوی

بوسہ جو رخ کا دیتے نہیں لب کا دیجئے

یہ ہے مثل کہ پھول نہیں پنکھڑی سہی

شیخ ابراہیم ذوقؔ

لے لو بوسہ اپنا واپس کس لیے تکرار کی

کیا کوئی جاگیر ہم نے چھین لی سرکار کی

اکبر میرٹھی

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے