منزل پر اشعار
منزل کی تلاش وجستجو
اور منزل کو پا لینے کی خواہش ایک بنیادی انسانی خواہش ہے ۔ اسی کی تکمیل میں انسان ایک مسلسل اور کڑے سفر میں سرگرداں ہے لیکن حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ مل جانے والی منزل بھی آخری منزل نہیں ہوتی ۔ ایک منزل کے بعد نئی منزل تک پہنچنے کی آرزو اور ایک نئے سفر کا آغاز ہوجاتا ہے ۔ منزل اور سفر کے حوالے سے اور بہت ساری حیران کر دینے والی صورتیں ہمارے اس انتخاب میں موجود ہیں ۔
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
-
موضوعات : ترغیبیاور 5 مزید
کسی کو گھر سے نکلتے ہی مل گئی منزل
کوئی ہماری طرح عمر بھر سفر میں رہا
نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی
نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی
-
موضوعات : آرزواور 2 مزید
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
جس دن سے چلا ہوں مری منزل پہ نظر ہے
آنکھوں نے کبھی میل کا پتھر نہیں دیکھا
فیضؔ تھی راہ سر بسر منزل
ہم جہاں پہنچے کامیاب آئے
-
موضوعات : راستہاور 1 مزید
کوئی منزل کے قریب آ کے بھٹک جاتا ہے
کوئی منزل پہ پہنچتا ہے بھٹک جانے سے
صرف اک قدم اٹھا تھا غلط راہ شوق میں
منزل تمام عمر مجھے ڈھونڈھتی رہی
اس نے منزل پہ لا کے چھوڑ دیا
عمر بھر جس کا راستا دیکھا
نہیں ہوتی ہے راہ عشق میں آسان منزل
سفر میں بھی تو صدیوں کی مسافت چاہئے ہے
-
موضوعات : سفراور 1 مزید
وہ کیا منزل جہاں سے راستے آگے نکل جائیں
سو اب پھر اک سفر کا سلسلہ کرنا پڑے گا
-
موضوع : راستہ
مجھے آ گیا یقیں سا کہ یہی ہے میری منزل
سر راہ جب کسی نے مجھے دفعتاً پکارا
-
موضوعات : عشقاور 2 مزید
ایک منزل ہے مگر راہ کئی ہیں اظہرؔ
سوچنا یہ ہے کہ جاؤ گے کدھر سے پہلے
سب کو پہنچا کے ان کی منزل پر
آپ رستے میں رہ گیا ہوں میں
کوئی منزل آخری منزل نہیں ہوتی فضیلؔ
زندگی بھی ہے مثال موج دریا راہ رو
-
موضوع : زندگی
منزل ملی مراد ملی مدعا ملا
سب کچھ مجھے ملا جو ترا نقش پا ملا
حسرت پہ اس مسافر بے کس کی روئیے
جو تھک گیا ہو بیٹھ کے منزل کے سامنے
اے جذبۂ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آ جائے
منزل کے لیے دو گام چلوں اور سامنے منزل آ جائے
محبت آپ ہی منزل ہے اپنی
نہ جانے حسن کیوں اترا رہا ہے
منزل نہ ملی تو غم نہیں ہے
اپنے کو تو کھو کے پا گیا ہوں
راہ بر رہزن نہ بن جائے کہیں اس سوچ میں
چپ کھڑا ہوں بھول کر رستے میں منزل کا پتا
منزلیں گرد کے مانند اڑی جاتی ہیں
وہی انداز جہان گزراں ہے کہ جو تھا
مجھ کو منزل بھی نہ پہچان سکی
میں کہ جب گرد سفر سے نکلا
چلا میں جانب منزل تو یہ ہوا معلوم
یقیں گمان میں گم ہے گماں ہے پوشیدہ
کس منزل مراد کی جانب رواں ہیں ہم
اے رہروان خاک بسر پوچھتے چلو
نہ تو رنج و غم سے ہی ربط ہے نہ ہی آشنائے خوشی ہوں میں
مری زندگی بھی عجیب ہے اسے منزلوں کا پتا نہیں
-
موضوع : غم